اکثر بچوں کو ان کے بچپن کے کسی خاص حصے میں ڈراؤنے خواب ضرور دکھائی دیتے ہیں، یہ خواب دس میں سے ایک بچے کو دکھائی دیتے ہیں جن کی عمر تین سے سات سال کے درمیان ہوتی ہے۔
گہری اور پرسکون نیند بچوں کی بہتر نشونما میں اہم کرادار ادا کرتی ہے اس دوران جسم دن بھر میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتا ہے۔
لیکن کچھ بچے دیگر بچوں کی طرح پرسکون اور گہری نہیں لے پاتے بلکہ وہ نیند میں کسی انجانے خوف اور ڈراؤنے خواب کے باعث گھبرا کر جاگ جاتے ہیں، اس طرح وہ خوف میں مبتلا رہتے ہیں جس کا اثر براہ راست ان کی صحت پر پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بچوں کو سُلانے کے لئے کافی محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ وہ یہ سوچ کر خوف زدہ ہوسکتے ہیں کہ وہ کوئی ڈراؤنا خواب نہ دیکھ لیں۔
ڈراؤنے خواب دیکھنا بہت عام بات ہے لیکن ابھی تک اس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تناؤ اور تھکاوٹ کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس مسئلے سے نجات کے لئے والدین کو چند آسان طریقوں پر عمل کرنا ہوگا۔
سومنس تھراپی کے ماہر ڈاکٹر کیتھرین نے چار اہم عناصر کا ذکر کیا ہے جو خوف زدہ کرنے والے خوابوں سے نجات میں معاون ثابت ہوگا۔
منفی خیالات
اگر بچہ سونے سے قبل منفی خیالات کا شکار ہے تو دن بھر انہیں خوشگوار چیزوں کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دیں اور بچے کی خواہش کے مطابق اچھے خوابوں کی اقسام پر بات کریں۔
مثال کے طور پر اگر آپ مستقبل میں سیر و تفریح کی نیت سے کہیں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو بچے سے کہیں کہ وہ اس کا تصور کریں کہ وہ جگہ کیسی ہوگی اور اس دن وہ کس طرح کا لباس پہنے گے کس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ اس طرح بچے کو خوشگوار خیالات کے بارے میں دن میں خواب دیکھنے کی ترغیب دیں۔
اس طرح ان میں ڈراؤنے خواب دیکھنے کے امکانات کم ہوں گے بلکہ وہ ان دلچسپ خیالات پر توجہ مرکوز کر کے جلد نیند کی آغوش میں جاسکتے ہیں۔
بچوں کے خوف پر بات کریں
آپ جتنا خوف سے بچتے ہیں وہ اتنے ہی بڑے ہوتے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچے جس شے سے خوف محسوس کرتے ہیں اس کے بارے میں بات کریں کیونکہ یہی خوف برے خواب کو جنم دیتے ہے۔
مثال کے طور پر اگر بچہ کسی گڑیا، جوکر یا پڑوسی کے کتے سے ڈرتا ہے تو آپ انہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ اور ان مخصوص خوف پر دن میں دس سے پندرہ منٹ بات کریں۔
آپ کا بچہ ان خیالات اور تصاویر سے جتنا مانوس ہوگا اس کا خوف کم ہوتا جائے گا، اور اس طرح پریشان کن خوابوں کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔
کھانے کا انتخاب سمجھداری سے کریں
بہت سی غذائیں ایسی ہیں جنہیں ڈراؤنے خوابوں سے جوڑا گیا ہے جن میں پنیر، چینی، مٹھائیاں، چاکلیٹ اور فاسٹ فوڈ شامل ہیں، ساتھ ہی کیفین پر مشتمل مشروبات بھی ڈراؤنے خواب کا ایک بڑا محرک ہے۔ جن میں اسپورٹس ڈرنکس، سافٹ ڈرنکس، آئس ٹی اور مخصوص قسم کے جوس شامل ہیں۔
اگر بچہ کبھی برے خواب دیکھنے پر جاگ جائے تو غور کریں اس نے پچھلی رات غذا میں کیا لیا تھا اور اوپر بتائی گئی غذاؤں کوصحت بخش غذاؤں یعنی کم چینی والی جیسے دہی، تازہ پھل، گرینولا یا ٹوسٹ کے ساتھ تبدیل کر دیں اس طرح ہلکی غذا پیٹ کی تکلیف جیسے گیس یا ایسڈ ریفلیکس کا باعث بھی نہیں بنے گی۔ کوشش کریں کہ سونے سے ایک گھنٹہ قبل کھانا کھلائیں تاکہ ہاضمے کے لئے وقت مل سکیں۔
آرام کریں
بڑوں کی طرح بچوں کے لئے بھی یہ بات یقینی بنائیں کہ وہ سونے سے ایک گھنٹے قبل ہی ٹی وی اور تمام ڈجیٹل آلات بند کر دیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان الیکٹراناک آلات سے نکلنے والی نیلی روشنی بچے کے دماغ میں نیند کے ہارمون میلاٹونن کے اخراج کو روکتی ہے جو آرام اور سکون پیدا کرتا ہے۔ اس طرح بچہ اسکرین پر کسی خوفناک تصویریا خیال سے محفوظ رہے گا۔
سونے سے قبل بچوں کو سانس یا ذہن سازی کی مشقیں کرانا بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے اس مقصد کے لئے یوگا اور مراقبہ اضطراب اور تناؤ کو کم کرنے اور مثبت سوچ کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرے گا۔