سپریم کورٹ کی طرف سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کا اہم اجلاس شروع ہو گیا ہے۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے قومی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پڑھی گئی اور پھر قومی ترانہ پڑھا گیا۔
آج ہونے والے اہم اجلاس کے لیے ممبران قومی اسمبلی ایوان میں اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے ہیں، قومی اسمبلی اجلاس میں حکومت کے 51 ارکان موجود ہیں تاہم وزیراعظم عمران خان ابھی تک اسمبلی ہال نہیں پہنچے ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا اجلاس کی صدارت شروع کرتے ہوئے کہنا تھا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق من و عن کارروائی کروں گا۔
شہباز شریف کا قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج پارلیمان آئینی و قانونی طریقے سے ایک سلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ سازش کی بات کریں گے تو بات بہت دور تک جائے گی اور ہم ان کو ننگا کریں گے۔
قائد حزب اختلاف نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ آپ عدالتی حکم کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو آگے بڑھائیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق اور اس کا دفاع کرنا ہمارا حق ہے، قوم کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ آئین کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔
وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ عدالتی فیصلے سے مایوس لیکن بوجھل دل کے ساتھ فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری پڑی ہے، 12 اکتوبر 1999 کو آئین شکنی ہوئی اور اسی اعلیٰ عدلیہ نے ایک آمر کو آئین میں ترمیم کا اخیار کیا جس کی تاریخ بھی گواہ ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف نے بیانات دیے کہ کوئی نظریہ ضرورت قبول نہیں کریں گے، میں خوش ہوں کہ ہماری جمہوریت پروان چڑھی ہے اور کوئی نظریہ ضرورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کی پاسداری کے لیے خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، 3 اپریل کو جو کچھ ہوا اسے دہرانا نہیں چاہتا لیکن عدلیہ نے اس کا نوٹس لیا، اتوار کو دروازے کھولے گئے، کارروائی کا آغاز ہوا اور متفقہ طور پر رولنگ کو مسترد کیا۔
وزیر خارجہ نے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس کیوں لیا گیا؟ اس کا ایک پس منظر ہے، قاسم سوری نے آئینی عمل سے انکار نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ایک نئی صورتحال آئی ہے، بیرون سازش کی بات ہو رہی ہے اس لیے اجلاس کا غیرمعینہ مدت تک ملتوی ہونا ضروری ہے۔
مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ دیکھ کر اسے سنگین مسئلہ قرار دیا اور پھر دفتر خارجہ امریکی سفیر کو ڈی مارش کرنے کا حکم دیا۔
شاہ محمود قریشی نے دھمکی آمیز مراسلے پر بات شروع کی تو اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور کہا کہ وزیر خارجہ پھر اس مراسلے سے متعلق بات کر رہے ہیں، آج کے ایجنڈے میں صرف تحریک عدم اعتماد شامل ہے۔
اپوزیشن ارکان شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں اپنی نشستوں پرکھڑے ہو گئے اور انہوں نے اسپیکر سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ شروع کر دیا۔
اپوزیشن کے شور شرابے کے بعد حکومتی بینچز سے بھی نعرے بازی شروع ہو گئی اور اسی دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا۔
قومی اسمبلی اجلاس سے پہلے کی صورتحال
قومی اسمبلی اجلاس سے قبل متحدہ اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، مولانا اسعد محمود اور اختر مینگل سمیت 176 اراکین نے شرکت کی۔
سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ موصول ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے ڈپٹی اسپیکر کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا حکم نامہ واپس لے لیا تھا جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے کی صبح دوبارہ ساڑھے 10 بجے بلانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
ایجنڈے میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شامل ہے، آرٹیکل 95 کے تحت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی قرارداد پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی۔
قومی اسمبلی کے چھ نکاتی ایجنڈے میں وقفہ سوالات، دو توجہ دلاؤ نوٹس اور ایک نکتہ اعتراض شامل ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے اہم سیشن کے موقع پر سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور ریڈ زون جانے والے تمام راستے سیل کر دیے گئے ہیں، غیر متعلقہ افراد کا پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلہ بند رہے گا جبکہ منحرف اراکین اسمبلی کے لیے اضافی سکیورٹی کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔
دوسری جانب متحدہ اپوزیشن نے بھی صبح 9 بجے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا ہے، شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتیں اپنی حکمت عملی طے کریں گی۔
یاد رہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ کوکالعدم قرار دیتے ہوئے 9 اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دیا تھا۔