وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا باضابطہ اعلان کردیا
اسلام آباد میں اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
پریس کانفرنس کی صدارت ایم کیو ایم کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کی اور اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آج ایک تاریخی موقع ہے، آج ایک امتحان کا سامنا ہے جس سے قومی قیادت کو گزرنا ہے ، ہم متحدہ اپوزیشن کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ ہمارا متحدہ اپوزیشن سے معاہدہ عدم اعتماد میں تعاون سے مشروط نہیں تھا، اعلان کر رہا ہوں کہ اس تبدیلی میں ہم اپوزیشن کے ساتھ ہوں گے۔
وزیراعظم چاہے سلیکٹڈ کیوں نہ ہوں عددی قوت کھو چکے تو مستعفی ہوں ، شہبازشریف
اس موقع پر پاکستان ملسم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ ’کل رات ایم کیو ایم کی طرف سے کہا گیا بات بہت حد تک مکمل ہوچکی ہے، یہ عوام کا مقدمہ ہے جو آج متحدہ اور بی اے پی نے اعلان کیا ہے، وزیراعظم چاہے سلیکٹڈ کیوں نہ ہوں عددی قوت کھوچکے تومستعفی ہوں، وزیراعظم آج اپنا استعفیٰ دے کر روایت قائم کریں۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے ہر حال اور ہرصورت میں مل کر کام کرنا ہے ، بلاول بھٹو
اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ ایم کیو ایم کا حکومت سے علیحدگی اور متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ تاریخی ہے، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے ہر حال اور ہرصورت میں مل کر کام کرنا ہے۔
بلاول نے کہا کہ ایم کیو ایم سے مذاکرات آج سے نہیں چل رہے، سینیٹ الیکشن میں بھی میری خواہش تھی کہ سندھ میں مل کر کام کرسکیں، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا ورکنگ ریلیشن شپ کا عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں، میری بہت پہلے سے خواہش تھی کہ سندھ میں ہم مل کے کام کریں، وزیراعظم عمران خان اپنی اکثریت کھوچکے ہیں، مستعفی ہوں،پوری قوم کی قیادت ایک پیج پر ہے۔
بلاول نے مزید کہا کہ ہم ناصرف کراچی بلکہ پاکستان کی ترقی کیلئے مل کے قدم اٹھائیں گے، ایم کیو ایم نے کراچی اور صوبے کا مفاد دیکھ کر فیصلہ کیا ہے۔
آپ میں کچھ بھی اخلاقیات باقی ہیں تو آج استعفیٰ دینا چاہیے، فضل الرحمان
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پوری پی ڈی ایم اور حزب اختلاف ایم کیو ایم کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے، ساڑھے تین چار سال پہلے اس ڈرامے کا آغاز ہوا تھا آج ڈراپ سین ہوا، کارکنوں نے اس نحوست سے نجات دلانے میں کردار ادا کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بے توقیری کی سیاست نے معاشرے کی بنیادیں ہلا دیں، آج ہم جس یکجہتی کا مظاہرہ کررہے ہیں ملک کی ترقی کیلئے اس یکجہتی کی ضرورت ہوگی، سنا ہے کہ آج وہ قوم سے خطاب کریں گے، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، آپ میں کچھ بھی اخلاقیات باقی ہیں تو آج استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ڈرامے مت بناؤ کسی نے دھمکی نہیں دی آپ کی حثیت کیا ہے ؟ تم ہو کیا چیز اپنے آپ کو بڑا بنانے کیلئے ایسی باتیں کرتے ہو، عالمی ایجنڈے کو ہم نے ناکام بنانا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ آج ایم کیو ایم اور بی اے پی کی وجہ سے ہماری تعداد 175 ہوگئی ہے جبکہ کامیابی کیلئے ہمیں 172 چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سازش ہوئی، میں کہتا ہوں جب انہیں اقتدار ملا وہ عالمی سازش تھی، عالمی سازش کے ہی تحت اُس وقت ماروائے قانون اقدام کیے گئے۔
اس موقع پر ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم مل کر لاپتہ افراد کی جدوجہد کو قومی جدوجہد میں تبدیل کریں گے۔
جب آپ اکثریت کھو چکے ہیں تو مستعفی ہوجائیں، اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنما اختر مینگل نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی نیک نیتی کی وجہ سے آج اس مقام پر پہنچے، ان کا اپنا ہی بیٹ ان کی وکٹ کو لگ چکا ہے، خان صاحب آپ کو کرکٹ کا تجربہ زیادہ ہوگا ہماری سیاست کا تجربہ زیادہ ہے، خان صاحب آپ سے درخواست ہے کہ مستعفی ہوجائیں ، جب آپ اکثریت کھو چکے ہیں تو مستعفی ہوجائیں۔
اختر مینگل نے مزید کہا کہ کون کس کا ایجنٹ ہے سازش ہوئی یہ چورن اب بکنے والا نہیں، ہمیں نہ نیا پاکستان چاہیے،نہ ہمیں پراناپاکستان چاہیے،ہم وہ پاکستان چاہتے ہیں جہاں میرے بچے لاپتہ نہ ہوں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز تحریک عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو بڑا سرپرائز دیا گیا اور بڑی حکومتی اتحادی ایم کیو ایم نے بھی اپوزیشن کے حق میں ووٹ دینے کا معاہدہ کر لیا۔
متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاملات طے پانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے بظاہر قومی اسمبلی میں اکثریت کھو دی ہے، حکومت کے قومی اسمبلی میں نمبر 164 رہ گئے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے نمبرز 177 تک پہنچ گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ منحرف حکومتی ارکان کے بغیر ہی متحدہ اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اکثریت مل گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بحث کا آغاز 31 مارچ سے ہوگا اور کسی بھی وقت اس پر ووٹنگ ہوسکتی ہے۔