پاکستان کی وفاقی کابینہ سے صدرِ پاکستان کے بجائے قائم مقام صدر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حلف لیا تھا۔اطلاعات یہ ہیں کہ صدر عارف علوی نے وفاقی کابینہ سے حلف لینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی حلف برداری کے موقع پر بھی اچانک طبیعت خرابی کے باعث صدر عارف علوی مختصر رخصت پر چلے گئے تھے۔
وزیرِ اعظم نے گزشتہ دنوں ہی پنجاب کے گورنر کو ہٹانے کی سمری صدر عارف علوی کو ارسال کی تھی جسے صدر علوی نے تاحال زیرِ غور رکھا ہوا ہے۔ صدر کے اس اقدام کے باعث نو منتخب وزیر اعلی کی حلف برداری توالت کا شکار ہے اور صوبے میں سیاسی ہیجان تھمنے کو نہیں آرہا۔
صدر عارف علوی کی جانب سے بظاہر حکومتی کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کے برتاؤ کے بعد یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے صدر نئی قائم شدہ حکومت کے لیے کیا مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔
صدر کا عہدہ وفاق کی علامت تصور کیا جاتا ہے جس کا انتخاب قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کی
صوبائی اسمبلیوں سے ہوتا ہے۔
ایوانِ صدر کے سابق ترجمان فاروق عادل کہتے ہیں کہ اگرچہ صدر کے پاس غیر محدود اختیارات نہیں ہیں تاہم وہ حکومت کی ایڈوائس کو نظر انداز کرسکتے ہیں اور منظوری کے لیے بجھوائی گئی سمری کو التواء میں ڈال سکتے ہیں۔
فاروق عادل کے مطابق حریف جماعت کے صدر ہونے کے باعث نظام کی بہت سی پیچیدگیاں سامنے آئیں گی جو کہ ماضی میں حکمران جماعت سے منتخب صدر کے ہونے کی وجہ سے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
ان کے بقول صدر عارف علوی اگر مستقل بنیاد پر نہیں تو عارضی سطح پر حکومت کے لیے خاصی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
ماہر قانون سینیٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں صدر کا عملی کردار نہیں ہوتا بلکہ نمائشی ہوتا ہے۔ اس بنا پر حکومت کی تبدیلی کے باوجود صدر اپنے فرائض جاری رکھ سکتے ہیں کیوں کہ آئینی منصب ہونے کے سبب ان پر لازم ہے کہ وہ جماعتی وابستگی سے بالا ہو کر کام کریں۔
محمد علی سیف کہتے ہیں کہ صدر کو حاصل اختیارات محدود اور وقت کی قید رکھتے ہیں اور اس بنا پر صدر وفاقی کابینہ یا وزیر اعظم کی کسی تجویز کو وقتی طور پر تاخیر میں ڈال سکتے ہیں مگر مستقل التوا یا رد نہیں کرسکتے۔
ان کے بقول گورنر پنجاب کا معاملہ سیاسی تاریخ کا اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے اور اس پر آئین کی تشریح کے لیے
عدالت سے رجوع کرلیا گیا ہے۔
فاروق عادل کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کو جلدی ہے کہ وہ انتخابی اور دیگر اصلاحات جلد منظور کروائیں اور صدر علوی کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس پر نظرِثانی کا کہتے ہوئے ایک ماہ تک تاخیر کرسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایوان صدر میں ایک لاء ڈویژن ہے جو کہ تمام تر قانون سازی، آرڈیننس اور سمریوں کو آئین پر پرکھ کر اپنی رائے دیتا ہے۔ اسی بنا پر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر علوی نے ریفرنس بجھواتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا ہے۔
کیا نئی حکومت صدر کو ہٹا سکتی ہے؟
صدر علوی کی جانب سے حکومت کے اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی صورت میں اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کیا راستہ اختیار کرسکتی ہے؟ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر علوی کی جانب سے عدم تعاون کی صورت میں حکومت اسمبلیوں سے قراردادوں کی منظوری کی صورت صدر پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ صدر کے مواخذے کی طرف بھی جاسکتی ہے۔
فاروق عادل کہتے ہیں کہ صدر کا مواخذہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
آئین کے مطابق صدر کے مواخذے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ فاروق عادل کہتے ہیں موجودہ پارلیمنٹ میں یہ دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث صدر کا مواخذہ
ممکن نہیں۔
محمد علی سیف کے مطابق حکومت کے پاس صدر کے مواخذے کا آپشن موجود ہے لیکن ان کے خیال میں صدر علوی نئی حکومت کے لیے زیادہ مشکلات پیدا نہیں کریں گے۔
اگر قومی اسمبلی میں عددی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو حکمراں اتحاد کو تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے ساتھ 200 کے قریب ارکان کی حمایت حاصل ہے جب کہ سینیٹ میں حکومت کے 72 اراکین ہیں۔
342 کے ایوان زیریں اور 100 نشستوں کے ایوان بالا میں دو تہائی اکثریت کے لیے 296 اراکین کی حمایت ہونا ضروری ہے۔اس اعتبار سے حکومت کو صدر کے خلاف مواخذے کے لیے 30 کے قریب مزید اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔
حکمران اتحاد کے بعض رہنما پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے تحریکِ انصاف کے مستعفی اراکین کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروا کر یہ عددی تعداد پوری کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کے 123 اراکین اسمبلی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تھے جن کے استعفے تاحال منظور نہیں کیے گئے ہیں۔