وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کس طرح ہوگی؟

وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کس طرح ہوگی؟

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی نو اپریل کو دوبارہ وہیں سے شروع کی جائے گی جہاں سے یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا۔

قومی اسمبلی کا ایوان ہفتے کو یہ فیصلہ کرے گا کہ انہیں وزیرِ اعظم عمران خان پر اعتماد ہے یا نہیں۔ اسمبلی اراکین وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری اوپن ووٹ کے ذریعے کریں گے جس کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ وزیرِ اعظم کو بیلٹ کی شکل میں ووٹ دیا جائے گا جسے ارکان ایک باکس میں ڈالیں گے۔

بلکہ اسمبلی کی کارروائی کے آغاز سے قبل ایوان میں گھنٹیاں بجائی جائیں گی تا کہ عمارت میں موجود اراکین اسمبلی ہال میں آ جائیں جس کے بعد ہال کے دروازے بند کرنے کے بعد باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہو گا۔

آئینِ پاکستان کے مطابق ملک کے وزیرِ اعظم اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا انتخاب اوپن ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم کو عہدے سے ہٹانے یا ان پر اعتماد کرنے کے لیے ووٹنگ بھی اوپن ہو گی۔ اوپن ووٹ کے لیے ایوان میں دو لابیاں بنائی جائیں گی۔ جو اراکین عدم اعتماد کے حق میں ہوں گے وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایک لابی میں جمع ہوں گے اور وہ اراکین جو وزیرِ اعظم پر اعتماد کا اظہار کریں گے وہ دوسری لابی میں اکٹھے ہوں گے۔

دونوں لابیوں میں پہلے سے موجود اسمبلی کا عملہ وہاں جمع ہونے والے اراکین کے فہرستوں میں نام پر نشان لگانے کے بعد اراکین کے دستخظ لے گا۔ اس طرح اراکین کے دستخظ کو ووٹ تصور کیا جائے گا۔

اراکین کے دستخط کا عمل مکمل ہونے کے بعد تمام اراکین واپس اسمبلی ہال میں آئیں گے جس کے بعد ووٹوں (دستخطوں)کی گنتی ہو گی اور اسپیکر کی جانب سے نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔

اگر ہفتے کو وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اسپیکر کی جانب سے تحریری طور پر صدرِ پاکستان کو آگاہ کیا جائے گا کہ وزیرِ اعظم اب قائدِ ایوان نہیں رہے جس کے بعد سیکریٹری کی جانب سے نوٹی فکیشن جاری ہو گا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ موجودہ اسمبلی کی پانچ سالہ مدت 25 جولائی 2023 کو مکمل ہو گی جس کے بعد نگراں حکومت قائم ہو گی جو تین ماہ کے اندر عام انتخابات کرائے گی۔

اگر وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستان میں یہ روایت برقرار رہے گی کہ ملک کے قیام سے اب تک کوئی بھی وزیرِ اعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔

متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ان کے پاس اسمبلی میں نمبرز پورے ہیں۔
متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ان کے پاس اسمبلی میں نمبرز پورے ہیں۔

اس وقت متحدہ اپوزیشن پرعزم ہے کہ ان کے پاس تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اسمبلی میں نمبرز پورے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان سے قبل دو وزرائے اعظم نے عدم اعتماد کی تحریکوں کا سامنا کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کو شکست دی ہے۔ سن 2006 میں وزیرِ اعظم شوکت عزیز کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اس سے قبل سن 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تھی۔

گزشتہ چھ روز کے دوران کیا ہوا ؟

تین اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی پیش کردہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی۔ لیکن ایوان کی مختصر کارروائی کے دوران ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک پر ووٹنگ سے قبل اسے مسترد کر دیا تھا۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد آنًافاناًوزیرِ اعظم نے صدرِ پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی جسے صدر نے منظور کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی۔ ملک میں اچانک پیدا ہونے والی اس آئینی بحران کی صورت حال پر سپریم کورٹ نے اسی روز اس پر از خود نوٹس لیا۔ اتوار کی چھٹی کے باوجود سپریم کورٹ نے معاملے پر مختصر سماعت کے بعد پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پراز خود نوٹس کی سماعت مسلسل چار روز تک کی۔

دوسری جانب اس عرصے کے دوران صدرِ پاکستان کی جانب سے خطوط کا سلسلہ جاری رہا۔

چار اپریل کو وزیرِ اعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو نگراں وزیرِ اعظم کے لیے جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد کا نام تجویز کیا اور اسی روز صدرِ پاکستان نے تحلیل شدہ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ایک خط میں کہا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 224 ون اے کے تحت چھ اپریل تک صدر کو نگراں وزیرِ اعظم کے نام سے متعلق مطلع کریں۔

صدرِ پاکستان کا اس خط میں کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے مقررہ وقت میں جواب موصول نہ ہونے پر نگراں وزیراعظم کی تقرری آئین کے مطابق کی جاۓ گی۔ تاہم اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے صدر کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نگراں وزیرِ اعظم کے لیے مشاورت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔

صدرِ پاکستان نے چھ اپریل کو نئے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا جس میں کمیشن سے نئے انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے کا کہا گیا۔

آئین کے آرٹیکل 48 5(A) اور آرٹیکل 224 (2) کے تحت صدر مملکت عام انتخابات کرانے کی تاریخ مقرر کریں گے، خطقومی اسمبلی کے انتخابات کیلئے اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں، خط— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) April 6, 2022

ادھر سپریم کورٹ نے سات اپریل کو اپنے فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ، وزیرِ اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے صدر کو ایڈوائس بھیجنے اور صدرِ پاکستان کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کے لیے کیے گئے اقدامات غیر آئینی قرار دیے۔

اعلیٰ عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ وزیرِ اعظم سمیت تمام وفاقی وزرا، تین اپریل کی تاریخ کےاپنے عہدوں پر بحال تصور کیے جائیں گے اور اسپیکر نو اپریل کو صبح ساڑھے دس بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے تک قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں کیا جائے،کسی بھی رُکن کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے اور اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو نئے قائدِ ایوان کا انتخاب اسی اسمبلی اجلاس کے دوران عمل میں لایا جائے۔