تین بار پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف کا سیاسی کرئیر اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ وہ کئی بار سیاست کے میدان سے باہر ہوئے اور اس کے لیے انہیں یا تو کبھی جلاوطن کیا گیا اور کبھی انہوں نے خود ہی ملک سے دوری اختیار کر لی۔ اب ایک بار پھر وہ طویل خود ساختہ جلا وطنی کے بعد ملک واپس آرہے ہیں جسے ملکی سیاست میں ان کا ایک اور کم بیک قرار دیا جا رہا ہے۔
نواز شریف کے علاوہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بے نظیر بھٹو کی 1986 اور 2007 میں وطن واپسی نے سیاسی فضا کو تبدیل کردی تھی۔ 1986 میں بے نظیر بھٹو جب واپس آئیں تو ملک میں ان کے والد کو اقتدار اور زندگی سے محروم کرنے والی فوجی حکومت تھی۔
اس واپسی کے بعد بے نظیر 1988 میں ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بنیں۔ ان کی حکومت 18 ماہ ہی چل سکی لیکن وطن واپسی سے ان کے ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوا اور وہ 1993 میں ایک بار پھر وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچیں۔ لیکن دوسری بار 2007 میں واپسی پر ان کی زندگی کا خاتمہ ہوا جس کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا۔
نواز شریف بھی 2007 میں اپنی طویل جلا وطنی ختم کر کے ملک واپس آئے تھے. البتہ اس بار انہیں جن سیاسی حالات کا سامنا ہے وہ ماضی میں ان کی وطن واپسی کے ادوار سے مختلف ہے۔ اس بار ان کی واپسی کتنی الگ ہے؟ یہ جاننے کے لیے ماضی میں انہیں درپیش سیاسی حالات کا ایک جائزہ لیا جائے تو بہت سے پہلو واضح ہوتے ہیں۔
قید سے جلا وطنی تک
نواز شریف کی پہلی جلا وطنی 2000 میں شروع ہوئی تھی۔ 18 اکتوبر کو اس وقت آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد وہ زیرِ حراست رہے۔
نواز شریف اگرچہ زیرِ حراست ہونے کے باعث مںظر عام پر نہیں رہے لیکن اس دوران ان کی اہلیہ کلثوم نواز نے سیاسی محاذ سنبھالا اور وہ اپنے شوہر سے متعلق حکومتی اقدامات کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں۔
نواز شریف کے خلاف چلنے والے مقدمے پر دنیا کی نگاہیں جمی تھیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ 1977 میں فوج کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کہیں نواز شریف کو بھی سزائے موت کی سزا نہ سنا دی جائے۔
نواز شریف کے خلاف چلنے والے مقدمے میں ان کے وکیل اقبال رعد کو مارچ 2000 میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا جس کے بعد بے یقینی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اپریل 2000 میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے نواز شریف کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کرنے اور دہشت گردی کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی۔
اس مقدمے میں نواز شریف کے علاوہ ان کے بھائی شہباز شریف سمیت پانچ اعلیٰ حکومتی عہدے دار بھی نامزد تھے۔ تاہم عدالت نے نواز شریف کے سوا دیگر ملزمان کو الزمات سے بری قرار دیا تھا۔
نواز شریف کے وکلا نے سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا اور ان کی اہلیہ کلثوم نواز نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا۔
دہشت گردی کے مقدمے میں اس سزا کو اس وقت نواز شریف کے سیاسی کریئر کا اختتام قرار دیا جا رہا تھا۔ اس کیس کے علاوہ اس وقت ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے نواز شریف اور ان کے خاندان پر کرپشن اور حکومتی اختیارات سے کاروباری فوائد حاصل کرنے کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔ ماضی کی طرح جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی احتساب کے مطالبات کی باز گزشت تھی۔
لیکن نواز شریف کی سزا کے آٹھ ماہ بعد ہی 10 دسمبر کو یہ خبر سامنے آئی کہ نواز شریف اپنے خاندان کے 18 افراد کے ساتھ سعودی عرب کے شہر جدہ روانہ ہو گئے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی جب کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے صدر مملکت رفیق تارڑ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سزا کی معافی کی درخواست انہوں نے منظور کی تھی۔
بعد ازاں یہ تفصیل سامنے آئی کہ نواز شریف سعودی شاہی خاندان کی ثالثی سے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت جدہ گئے تھے۔ اس معاہدے میں نواز شریف نے دس سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا وعدہ کیا تھا جب کہ ان کی لاکھوں ڈالر مالیت کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی گئی تھیں۔
نواز شریف پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیرِ اعظم تھے جنھیں اس طرح ایک معاہدے کے تحت جلا وطن کیا گیا تھا جب کہ ان سے قبل سابق بے نظیر بھٹو لندن میں خود ساختہ جلا وطنی گزار رہی تھیں۔
نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور ان کی کابینہ میں وزیر رہنے والے کئی سیاسی رہنما ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ 2002 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف کی کابینہ میں وزیر رہنے والے چوہدری شجاعت نے پاکستان مسلم لیگ (ق) بنا لی تھی جو الیکشن کے بعد اقتدار میں بھی آئی۔
اس دور میں پیپلز پارٹی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اپوزیشن کی مرکزی جماعتیں رہیں۔
سن 2007 میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد شروع ہونے والی وکلا کی تحریک سے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کمزور ہوتی چلی گئی۔ اسی دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے پس پردہ رابطے شروع ہو چکے تھے۔
پہلی کوشش۔۔۔
پرویز مشرف کی مدت صدارت ختم ہونے والی تھی اور قومی و صوبائی الیکشن بھی قریب تھے۔ وہ ایک بار پھر الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے تھے کہ نواز شریف نے 10 ستمبر 2007 کو وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔
اس سے قبل اگست میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ نواز شریف کو وطن واپسی کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ حکومت نے ابتدائی طور پر عدالتی فیصلے کا احترام کرنے کا مؤقف اختیار کیا۔ لیکن نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل ہی مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا تھا۔
نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل آٹھ ستمبر 2007 کو ایک اور ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب اس وقت کے سعودی انٹیلی جنس چیف مقرن بن عبدالعزیز اور سابق لبنانی وزیرِ اعظم رفیق حریری کے بیٹے سعد الحریری نے ایک پریس کانفرنس میں اس معاہدے کی کاپی لہرائی جس کے تحت نواز شریف نے سال 2000 میں 10 سال تک سیاست سے دور رہنے کا وعدہ کیا تھا۔
ان دونوں غیر ملکی رہنماؤں نے نواز شریف پر وطن واپسی اور سیاست سے باز رہنے کے لیے زور دیا۔ لیکن 10 ستمبر 2007 کو نواز شریف لندن سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔
سات سالہ جلا وطنی کے بعد نواز شریف کی وطن واپس آنے کی یہ پہلی کوشش ناکام رہی۔ حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنان کی گرفتاریاں پہلے ہی شروع کردی تھیں جب کہ 10 ستمبر کو اسلام آباد ایئر پورٹ بھی سیل کردیا گیا۔
اسلام آباد پہنچنے کے بعد پہلے تو نواز شریف کو تقریباً 90 منٹ تک جہاز ہی سے باہر نہیں آنے دیا گیا۔ جہاز سے اترنے کے بعد انہیں ایئرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا گیا اور ملک پہنچنے کے تقریباً چار گھنٹے بعد انہیں سعودی عرب ڈی پورٹ کردیا گیا۔
ایک بار پھر۔۔۔
اکتوبر 2007 کے بعد پاکستان میں تیزی سے سیاسی حالات بدل رہے تھے۔ پانچ اکتوبر کو صدر پرویز مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) جاری کردیا تھا جس کے مطابق یکم جنوری 1986 سے 12 اکتوبر 1999 کے دوران سیاسی بنیادوں پر دائر کیے گئے مقدمات ختم کردیے گئے تھے۔
این آر او کو بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان جاری مذاکرات کا نتیجہ قرار دیا جاتا تھا تاہم آرڈیننس میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے قومی قیادت پر اعتماد کی بحالی کو اس کا مقصد قرار دیا گیا تھا۔
اکتوبر 2007 ہی میں آٹھ برس کی جلا وطنی ختم کرنے کے بعد بے نظیر بھٹو نے دبئی سے کراچی آنے کا اعلان کردیا تھا۔ 18 اکتوبر کو ان کے خیر مقدمی قافلے میں دو زوردار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ بے نظیر اس حملے میں بال بال بچیں۔
چھ اکتوبر کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں جنرل پرویز مشرف کو کامیابی تو مل گئی تھی لیکن صدارتی امیدوار کے طور پر ان کی اہلیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا تھا اور الیکشن جیتنے کے بعد بھی ان کا سیاسی مستقبل بے یقینی سے دو چار تھا۔
ملک میں پہلے ہی یہ باز گشت سنائی دے رہی تھی کہ سپریم کورٹ سے اپنی اہلیت کے خلاف کسی ممکنہ فیصلے سے قبل جنرل پرویز مشرف ملک میں ’ایمرجنسی پلس‘ نافذ کردیں گے۔ تین نومبر 2007 کو ایسا ہی ہوا اور پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کر دیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 61 جج غیر فعال ہوگئے۔
ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ پاکستان میں نیوز چینلز بند کردیے گئے۔ صدر پروز مشرف نے اگرچہ اپنے اعلان میں ’بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی روک تھام‘ کو ایمرجنسی کے نفاذ کا بنیادی سبب بتایا تھا لیکن یہ در اصل اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے کی ان کی آخری کوشش تھی۔
تین نومبر سے 15 دسمبر تک ملک میں ایمرجنسی نافذ رہی۔ اسی دوران 28 نومبر کو جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ کر پاکستانی فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کردی اور خود 29 نومبر کو سویلین صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا۔
ان حالات میں 25 نومبر 2007 کو نواز شریف وطن واپس آگئے۔ ڈھائی ماہ زائد عرصے میں وطن واپسی کے لیے یہ ان کی دوسری کوشش تھی۔
اس دور کی میڈیا رپورٹس کے مطابق پرویز مشرف نے سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ سے رابطہ کر کے انہیں نواز شریف کو وطن واپسی سے روکنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
ملک اور سیاست میں واپسی
نواز شریف وطن واپس پہنچے تو آٹھ جنوری 2008 کو الیکشن کا اعلان ہوچکا تھا۔ ملک میں انتخابی مہم کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ لیکن ساتھ ہی دہشت گردی کی کارروائیاں بھی عروج پر تھیں۔ بے نظیر بھٹو جو اس سے قبل حملے میں محفوظ رہی تھیں۔ لیکن 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ہونے والے حملے میں جاں بر نہ ہو سکیں۔
بے نظیر کی ہلاکت کے بعد انتخابات 18 فروری تک مؤخر ہو گئے تھے۔ نواز شریف 2008 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے البتہ ان کی پارٹی صوبۂ پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
ابتدائی طور پر مسلم لیگ (ن) نے حکومت میں شمولیت اختیار کی تاہم بعد میں ججز بحالی پر ہونے والے اختلاف کی وجہ سے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی۔
اس کے بعد نواز شریف ججوں کی بحالی کے لیے اسلام آباد کی جانب ہونے والے وکلا کے لانگ مارچ کا حصہ بنے۔ نواز شریف اس مارچ کی وکلا قیادت کے ساتھ ابھی لاہور سے گوجرانوالہ پہنچتے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری اور اعلی عدلیہ کے دیگر ججز کو بحال کر دیا۔
ججز بحالی کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان مختلف فیصلوں کی وجہ سے تعلقات کشیدہ رہے۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر 19 جون 2012 کو وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کردیا۔ اس کشیدگی میں نواز شریف عدالتی فیصلوں کی حمایت کرتے رہے اور پیپلز پارٹی پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔
دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا تو نواز شریف نے اس کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور اس پر بننے والے عدالتی کمیشن میں بھی پیش ہوئے۔ تاہم بعدازاں انہوں نے میمو گیٹ اسکینڈل میں اپنے سابقہ مؤقف پر اظہارِ افسوس بھی کیا۔
نواز شریف نے 2007 میں واپسی کے بعد ایک فعال اپوزیشن رہنما کا کردار ادا کیا اور 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔
اس دوران 2011 کے بعد عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریکِ انصاف لاہور میں اپنے ایک بڑے جلسے کے بعد ملک میں ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی تھی اور 2013 کے انتخابات میں وہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ر ہی۔ عمران خان نے 2013 کے انتخابی نتائج پر دھاندلی کے الزامات عائد کر کے احتجاجی تحریک چلائی اور دھرنے بھی دیے۔
نواز شریف 2013 میں تیسری بار ملک کے وزیرِ اعظم بن گئے لیکن اس بار بھی انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ اس بار بھی انہیں پاکستانی سیاست میں سول ملٹری تعلقات میں توازن کے دیرینہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
پانامہ اسکینڈل اور سیاسی ہنگامہ خیزی
نواز شریف کی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے دور میں 2016 کا سال ان کے لیے کئی اعتبار سے فیصلہ کن ثابت ہوا۔
اس سال تین اپریل کو انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے دنیا بھر کی سیاسی اور کاروباری شخصیات کی آف شور کمپنیز سے متعلق تقریباً ساڑھے 11 لاکھ خفیہ دستاویزات جاری کیں۔ یہ دستاویزات بعد میں ’پانامہ پیپرز‘ کہلائیں۔
ان آف شور میں کمپنیوں میں دیگر پاکستانی سیاسی و کاروباری شخصیات کے علاوہ آٹھ کمپنیوں کا تعلق نواز شریف کے دونوں بیٹوں حسن نواز، حسین نواز اور بیٹی مریم نواز سے بھی تھا۔ البتہ ان میں سے کوئی آف شور کمپنی براہ راست نواز شریف کے نام پر نہیں تھی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پشاور حملے کے بعد انتخابی دھاندلی کے خلاف ہونے والا اپنا 126 روزہ دھرنا ختم کر چکے تھے۔ پانامہ پیپرز جاری ہونے کے بعد انہوں نے نواز شریف کے خلاف تحقیقات کرنے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ شروع کردیا۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی بھی پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے مطالبے کے حق میں تھی۔
حزبِ اختلاف کا دباؤ بڑھنے کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف نے پانامہ پیرز کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن پہلے تو عدالتی کمیشن قواعد یا ٹرم آف ریفرنس پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہ ہوسکا۔
بعد ازاں 13 مئی 2016 کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے تحقیقات کے لیے مطلوبہ قانونی اختیارات اور غیر واضح ٹرم آف ریفرینس کی وجہ سے اس معاملے پر ایک ’بے اختیار‘ کمیشن بنانے سے انکار کر دیا۔
لندن میں قیام
ملک میں پانامہ پیپرز کے بعد شروع ہونے والی سیاسی ہنگامہ خیزی جاری تھی کہ نواز شریف اپنے طبی معائنے کے لیے لندن روانہ ہو گئے اور 48 روز تک وہاں قیام کیا۔ 31 مئی 2017 کو ان کے دل کی ایک سرجری ہوئی جس کے بعد 9 جولائی کو وہ وطن واپس آئے۔
نواز شریف کے لندن میں قیام سے متعلق مختلف چہ مگوئیاں جاری رہیں اور ان کے سیاسی ناقدین نے لندن میں ان کے قیام کو ملک میں جاری سیاسی بحران سے بچنے کوشش بھی قرار دیا۔ تاہم نواز شریف کے اہل خانہ اور ان کی جماعت کا مؤقف تھا کہ انہیں 2011 میں دل کی سرجری کے بعد دوبارہ پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔
نواز شریف کی لندن سے واپسی کے بعد پانامہ پیپرز کے معاملے پر سیاسی درجۂ حرارت مسلسل بلند ہوتا گیا۔ 29 اگست 2016 کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ ان کے علاوہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق بھی دراخوست گزاروں میں شامل تھے۔
دسمبر تک اس کیس کی سماعت جاری رہی۔ اس دوران چھ اکتوبر 2016 کو پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے فوجی قیادت پر یہ واضح کیا تھا کہ اگر انہوں نے عسکریت پسند گروپس سے لاتعلقی اختیار نہیں کی تو پاکستان کو سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ ایک ان کیمرہ اجلاس سے متعلق خبر تھی جسے پاکستانی فوج نے اجلاس کی معلومات لیک کرنے کے مترادف قرار دیا اور بعد میں اسے ’ڈان لیکس‘ کا نام دیا گیا۔ ڈان لیکس کے معاملے پر وزیرِ اعظم نواز شریف اور ملکی فوجی قیادت کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوگیا۔
ادھر دسمبر میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد منصب سنبھالنے والے جسٹس ثاقب نثار نے یکم جنوری 2017 پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے چار جنوری سے دوبارہ پانامہ پیپرز کی سماعت شروع کر دی۔
کیس کی سماعت شروع ہونے کے تقریباً ساڑھے چار ماہ بعد 20 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ نے تین دو کا فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا جب کہ جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید نے مزید تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا فیصلہ دیا۔
اس جے آئی ٹی کو 60 روز کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ جے آئی ٹی میں ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، نیب، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جینس کے نمائندے شامل کیے گئے تھے اور اسے ہر 15 روز بعد اپنی رپورٹ سے عدالت کو آگاہ کرنے کا پابند کیا گیا۔
جے آئی ٹی کی تشکیل کے تین ماہ بعد سپریم کورٹ پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ایون فیلڈ فلیگ شپ اور العزیزیہ اسٹیل کمپنی ریفرنس فائل کرنے کا حکم دیا۔
نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ان ہی کی جماعت سے شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے اور پنجاب میں ان کے بھائی شہباز شریف کی حکومت برقرار رہی۔
تاہم سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد نواز شریف کی سیاست میں واپسی کی راہیں محدود ہوتی گئیں۔
ایک جانب نیب کے ریفرینسز میں نواز شریف عدالتی کارروائی کا سامنا کررہے تھے تو دوسری جانب فروری 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سرپراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے انہیں اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا۔
بعدازاں 13 اپریل 2018 کو سمیع اللہ بلوچ بنام عبد الکریم نوشیروانی کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے اتفاقِ رائے سے آئین کے آرٹیکل 62 ایک ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کو تاحیات قرار دے دیا۔
نواز شریف اور اس وقت پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت ہوئی تھی اس لیے ان کی نا اہلی بھی تاحیات قرار پائی۔
نواز شریف کے خلاف نیب کیسز کی کارروائی جاری تھی۔ وہ 18 اپریل 2018 کو لندن میں اپنی علیل اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے روانہ ہو گئے۔ لندن روانگی کے لیے انہیں احتساب عدالت میں پیشی سے استثنیٰ دیا گیا۔
چھ جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے نواز شریف کو غیر موجودگی میں ایون فیلڈ ریفرینس میں دس برس قید کی سزا سنا دی۔ اس کیس میں ان کی بیٹی مریم نواز کو سات برس اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی دی۔
اس سزا کے بعد نواز شریف 13 جولائی 2018 کو اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ لاہور واپس آئے جہاں انہیں ایئرپورٹ ہی سے حراست میں لے لیا گیا۔ نواز شریف 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن کی مہم میں بھی حصہ نہیں لے سکے۔ مسلم لیگ (ن) اور کئی مبصرین نے انتخابات سے قبل سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر کئی سوال اٹھائے۔
اس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف اقتدار میں آئی اور اگست میں عمران خان پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے۔ ان کے دور میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر نیب نے کئی مقدمات چلائے۔
بعد ازاں 24 دسمبر کو احتساب عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرینس میں بری کر دیا جب کہ احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں انہیں سات سال قید کی سزا سنا دی۔
قید کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 اکتوبر 2019 کو العزیزیہ کیس میں طبی بنیادوں پر نواز شریف کی سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کردی۔ 16نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے چار ہفتوں کے لیے نواز شریف کو طبی معائنے کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی اور حکومت کو ان کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دیا جس کے بعد 19 نومبر 2019 کو وہ بیرونِ ملک روانہ ہوگئے۔
چار ہفتوں کے لیے دی گئی اس اجازت کے بعد نواز شریف لگ بھگ چار برس لندن میں قیام کے بعد 21 اکتوبر کو چوتھی بار پاکستان واپس آرہے ہیں۔
گزشتہ چار برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ نواز شریف کے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور انہیں متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔ تحریکِ انصاف نو مئی 2023 کے واقعات کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
عام تاثر یہ ہے گزشتہ برس عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پاکستان کے مقتدر حلقوں میں ماضی جیسی تلخیاں نہیں رہی ہیں۔ 2018 کے مقابلے میں ان کی جماعت آئندہ انتخابات کے لیے زیادہ پرُ امید اور سرگرم ہے۔
سال 2018 کے مقابلے میں آج نواز شریف کے لیے حالات ساز گار نظر آتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت کے قائدین بھی اس جانب اشارہ کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اپنی ایک تقریر میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے جلسہ عام سے خطاب میں کہا کہ ’ریاست‘ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش میں مصروف ہے۔
ان حالات میں جلا وطنی کے بعد چوتھی بار ملک واپس آنے والے نواز شریف کے لیے اقتدار میں واپسی کا راستہ بھی ہموار ہوگا یا نہیں؟ آئندہ حالات و واقعات ہی اس سوال کے جواب کا تعین کریں گے۔