اسلام آباد : حکومت اور متعلقہ ایجنسیاں اب بھی ڈارک ویب کے اس دعوے کے حوالے سے اندھیرے میں ہیں کہ اس کے پاس وزیراعظم آفس کا آڈیو ڈیٹا (جاسوس آلات کے ذریعے یا پھر ہیکنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا) موجود ہے اور کیا ڈارک و یب والے یہ ڈیٹا جمعہ تک جاری کر دیں گے یا نہیں۔
متعلقہ ایجنسیوں نے اگرچہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدامات کر لیے ہیں لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی کہ کس قدر نقصان ہو چکا ہے۔ تاہم، یہ سائبر سکیورٹی میں خامی کا سنگین معاملہ ہے جس میں ملک کے اعلیٰ ترین ایگزیکٹو عہدیدار کے دفتر کی جاسوسی کی گئی ہے۔
کئی ممالک میں اہم عہدیداروں کی نگرانی کی جاتی ہے لیکن یہاں باہر بیٹھے کسی شخص کی جانب سے بڑے حجم میں آڈیو ڈیٹا ہیکنگ یا جاسوسی کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع کا اصرار ہے کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس میں 100؍ فیصد سائبر سکیورٹی کو یقینی بنانا ممکن نہیں۔ تاہم، اس بات کا پتہ نہیں چل پایا اور کوئی وضاحت بھی موجود نہیں کہ پی ایم ہاؤس کی جاسوسی کئی مہینوں سے کیسے ہو رہی تھی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی ڈیوائسز سے پاک کرنے کیلئے وزیراعظم آفس میٹنگ رومز وغیرہ کی باقاعدگی کے ساتھ تلاشی لی جاتی ہے۔
اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ جو ہو چکا ہے اسے درست نہیں کیا جا سکتا لیکن مستقبل کیلئے درست اقدامات لیے جا چکے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو انٹیلی جنس بیورو نے 10؍ دن قبل ہیکنگ / جاسوسی کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔ حال ہی میں یہ آڈیو لیکس سوشل میڈیا پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ وزیراعظم آفس میں 100؍ گھنٹے کی وزیراعظم اور کابینہ ارکان کی بات چیت انٹرنیشنل ہیکر ویب سائٹ پر لیک ہوئی ہے۔
ہیکر نے 3؍ لاکھ 45؍ ہزار ڈالرز کا مطالبہ کیا ہے، ڈیٹا کا حجم 8؍ گیگا بائیٹس ہے جس میں سیاسی، معاشی اور سلامتی سے جڑے معاملات پر بات چیت موجود ہے۔ اگرچہ انٹیلی جنس ذرائع کو ان دعوؤں کے درست ہونے کا یقین نہیں لیکن متعلقہ ڈارک ویب نے منگل کو بیان جاری کیا تھا کہ وہ جمعہ (30؍ ستمبر کو) ساڑھے 9؍ بجے صبح یہ ریکارڈ جاری کر دے گا، مزید کوئی بات چیت یا پیشکش نہیں کی جائے گی۔
ڈارک ویب کے دعوے میں کہا گیا ہے کہ آڈیو ریکارڈنگز میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت، سرکاری افسران کے ساتھ بات چیت، فوجی افسران کے ساتھ بات چیت، اہم فوجی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت، نجی او رسرکاری معاملات پر بات چیت، وزیراعظم کے خاندان کے افراد کے درمیان بات چیت شامل ہے جبکہ ایسی بات چیت کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے جن میں مجرمانہ نوعیت کی بات چیت بھی شامل ہے، بات چیت میں ججوں اور غیر ملکی وفود کے ساتھ بات چیت شامل ہے جبکہ کچھ آڈیوز میں سرکاری ملازمین کو احکامات و ہدایات دی جا رہی ہیں۔
ڈارک ویب کے بیان میں کہا گیا ہے کہ توقع ہے کہ یہ ڈیٹا لیک ہونے کے نتیجے میں پاکستان میں بہتری آئے گی۔