آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل؛ ’نئی حکومت کو نیا معاہدہ کرنا پڑے گا‘

آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل؛ ’نئی حکومت کو نیا معاہدہ کرنا پڑے گا‘

معاشی ماہرین نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ مسئلے کا عارضی حل ہے جب کہ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے پاکستان کو اپنے معاشی حالات بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے پاکستان کو آئندہ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کور فراہم کرد یا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ (ایس بی اے) کے دوارن اضافی فنڈنگ کے لیے کوششیں تیز کر دینی چاہئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اسی صورت میں پاکستان آئندہ مہینوں میں اپنے واجبات کی ادائیگیاں کر پائے گا۔

مرتضیٰ سید کے بقول حالیہ معاہدہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے تعلقات کا خاتمہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ انتخابات کے بعد اگلی حکومت کو ادائیگیوں کے توازن اور غیر ملکی قرض ادا کرنے کے لیے ایک اور طویل مدتی آئی ایم ایف پروگرام کے لیے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔

کراچی کی اسماعیل اقبال سیکیورٹیز کے سی ای او احفاظ مصطفی کا کہنا ہے کہ حالیہ معاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فی الوقت مقامی یا غیر ملکی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل؛ ’نئی حکومت کو نیا معاہدہ کرنا پڑے گا‘

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں مزید تفصیلات کا انتظار کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا جولائی میں آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ سے قبل بھی حکومت کو مزید اقدامات تو نہیں کرنا ہوں گے۔ تاہم ان کے بقول یہ جو بھی اقدامات ہوں گے یقینی طور پر درست سمت میں ہوں گے۔

اسلام آباد میں قائم ’میکرو اکنامک انسائٹ‘ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ثاقب شیرانی کا اسٹینڈ بائی معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سے واضح ہوگیا ہے کہ آئی ایم ایف کی ایک اور ’ایکسٹینڈڈ فنڈنگ فیسلیٹی‘ (ای ایف ایف) پورا ہوئے بغیر ختم ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹینڈ بائی معاہدہ موجودہ اور انتخابات کے بعد نئی حکومت کو ایک عارضی لائف لائن فراہم کرے گا۔ لیکن نئی آنے والی حکومت کو از سر نو اور طویل المیعاد معاہدے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔

رائٹر ز سے بات کرتے ہوئے اورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیف ایگزیکٹو اور جنرل سیکریٹری عبدالعلیم کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے غیریقینی معاشی ماحول میں اسے ایک اہم اور مدگار پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اسٹیٹ بینک نے مہارت کے ساتھ موجودہ صورتِ حال کا سامنا کیا ہے لیکن سخت اقدامات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

Facebook API failed to initialize.


’توانائی مہنگی ہو گی‘

معاشی ماہر ماہا رحمان کا کہنا ہے کہ یہ اس سال کا سب سے ضروری ریلیف تھا جس کی ہم امید کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ ہم اس معاہدے سے ملنے والی مہلت میں ایسے فیصلے کریں گے جن کی مدد سے ہمیں ان مشکلات کا سامنا نہ ہو جن کا پورے گزشتہ برس ہم نے سامنا کیا اور آئندہ ایسے حالات کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے میں خاص طور پر توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اب حکومت کو مالیاتی امور کے لیے محتاط فیصلہ سازی کرنا ہو گی۔

سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ساجد امین جاوید کا کہنا ہے کہ اسٹینڈ بائی معاہدے میں بجلی کے نرخ میں بڑے اضافے، مارکیٹ ویلیو کے مطابق ایکسچینج ریٹ کے تعین سمیت مزید شرائط سامنے آئیں گی۔ لیکن پاکستان کے پاس اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہماری حکومتیں ماضی کے آئی ایم ایف پروگرام پورے کرنے کے لیے اقدامات کرتیں تو حالات آج قدرے بہتر ہوتے۔ حالیہ غیر یقینی صورت حال اور روپے پر دباؤ جیسے حالات کو ٹالا جاسکتا تھا۔

‘پاکستان یقین دہانیوں سے پیچھے ہٹ سکتا ہے’

لندن میں سرمایہ کاری پر مشاورت فراہم کرنے والے ادارے ’کیپیٹل اکنامکس‘ کے سینیئر اقتصادی ماہر گیرتھ لیدر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پاکستان کے ساتھ ہونے والے قرض کے معاہدے کے بعد معیشت دوبارہ محفوظ راستے پر آنی چاہیے اور اس کو درپیش خطرات محدود ہونے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے تجربات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کو اخراجات محدود کرنے کے اپنے مشکل وعدے پورے کرنے میں دشواری کا سامنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کا واضح خدشہ موجود ہے کہ حالیہ بحران ٹلنے کے بعد پاکستان ایک بار پھر اپنی یقین دہانیوں سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔

گیرتھ لیدر کے مطابق ان خدشات کا واضح محرک رواں برس ہونے والے انتخابات ہیں جو نومبر تک متوقع ہیں۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اگر اس ڈیل پر مکمل عمل درآمد چاہتے بھی ہوں تو وہ اس سال کے آخر تک عہدے پر نہیں ہوں گے اور ان کی جگہ کوئی اور آ سکتا ہے جس کی معاہدے پر عمل درآمد کی کمٹمنٹ ممکن ہے کہ شہباز شریف جیسی نہ ہو۔