پاکستان میں سیاسی غیر یقینی کی صورتِ حال مزیدہ پیچیدہ ہورہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے ہونے والے تصادم کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اور ملک میں انتخابات کے مستقبل سے متعلق کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی ایک نئی ‘کنگز پارٹی’ بننے کی بازگزشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے عام طور پربات چیت کا راستہ ہی تجویز کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اپنے حالیہ بیانات میں مذاکرات کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن مبصرین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ زخم خوردہ نظر آرہی ہے اور اس وجہ سے وہ کسی سے کوئی مذاکرات نہیں چاہتی۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے پاکستان جس سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے معیشت مزید اس کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ سیاسی استحکام کے لیے جلد یا بدیر انتخابات ہی واحد راستہ ہیں۔ تاہم
موجودہ حالات میں اس بارے میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
تجزیہ کار اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں عمران خان کی ٹیم اور پی ڈی ایم کے درمیان ایک ہی وقت میں انتخابات پر اتفاق ہوا تھا۔
اُن کے بقول رواں سال اکتوبر یا پھر دسمبر میں انتخابات کرا دیے جائیں گے جس کے بعد حالات معمول پر آنا شروع ہوجائیں گے۔ اس دوران جو درمیانی وقت ہوگا اس میں پاکستان تحریک انصاف کو اس قدر کمزور کیا جائے گا کہ الیکشن جیتنا تو دور رہا اسے محض چند نشستوں تک محدود کردیا جائے گا۔
الیکشن کا مستقبل؟
تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ماضی میں اکثر حکومتوں کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا رہا ہے لیکن اس بار ‘جہاد’ کا نعرہ لگا کر فوجی اداروں پر حملہ کیا گیا ہے۔ ایسے حملوں کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ فورسز کو یہ توقع نہیں تھی کی حالات یہاں تک پہنچ جائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سلمان غنی نے کہا کہ نو مئی سے پہلے مذاکرات میں پیش رفت ہوچکی تھی لیکن عمران خان نے 14 مئی سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کا کہہ کر مذاکرات ختم کردیے۔
ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مقبول جماعت تھی لیکن ٹکراؤ کی سیاست کی وجہ سے آج ان کے لوگ سیاست چھوڑ کر جارہے ہیں۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ اپنا راستہ بناتے لیکن انہوں نے ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی جسے کسی نے قبول نہیں کیا۔ مذاکراتی کمیٹی اب بنا رہے ہیں لیکن یہی کمیٹی نو مئی سے قبل بن جاتی اور بات چیت ہوتی تو نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی تھی۔
انتخابات کے حوالے سے سلمان غنی نے کہا کہ انتخابات کے آثار بہت کم نظر آرہے ہیں۔ عمران خان کی امید سپریم کورٹ
تھی لیکن موجودہ حالات میں اب اعلیٰ عدلیہ سے بھی انہیں ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل(ر) نعیم خالد لودھی بھی پاکستان میں آئندہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق شکوک و شبہات کی تائید کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بعض سیاست دانوں کی غلطیوں کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیش آئی ہے جس میں مستقبل قریب میں انتخابات نظر نہیں آ رہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کا کہنا ہے کہ اگلے دو ماہ بہت مشکل ہیں کیوں کہ بجٹ آنا ہے اور اس کے بعد سیاسی صورتِ حال واضح ہوگی کہ کب الیکشن کروائے جائیں گے۔
مذاکرات مگر کس کے ساتھ؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر جارہے ہیں ان میں سب کے کرپشن کیسز موجود ہیں اور جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو بتاتے ہیں تو یہ لوگ پارٹی چھوڑ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کا فائدہ حکمران جماعت کو بھی ہورہا ہے کہ لوگ مہنگائی،آئی ایم ایف اور دیگر معاملات کو بھول کر صرف عمران خان اور ان کی جماعت پر بات کررہے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کرنا ہوں گے۔چاہے جتنی لڑائی ہوجائے آخری حل مذاکرات ہی ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ غیرمشروط مذاکرات کریں اور سیاسی لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ عمران خان کی مقبولیت ان کی اپنی ضد اور ان کی وجہ سے ختم ہونے جارہی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر کہتے ہیں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جھگڑے کے بینیفشری پی ڈی ایم ہے اور ان کی کوشش ہے کہ صورتِ حال جوں کی توں رہے۔ البتہ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان کا فوج سے جھگڑا نہیں، انہوں نے ونڈو اوپن رکھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طاقت کے ذریعے کسی جماعت کو فارغ نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے ماضی میں پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہوا تھا لیکن اس سب کا اختتام اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بات کرنے پر ہی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے سامنے اس وقت چیزیں بلیک اینڈ وائٹ میں موجود ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی اصل قوت ہے، ایسے میں وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت دیکھ لیں کہ ایک طرف نو مئی کا کہا جارہا کہ بہت بڑا ظلم ہوا لیکن دوسری جانب جو پریس کانفرنس کرتا ہے اسے کلین چٹ مل جاتی ہے۔ جیل سے باہر آنے والوں کو پولیس وین میں پریس کلب جانا ہوتا ہے یا پھر دوبارہ جیل ،جب ایسے ہوگا تو ان ہی لوگوں سے بات ہوگی جو یہ سب کنٹرول کررہے ہیں۔
احمد بلال محبوب عمران خان کے فوج سے بات چیت کے مطالبے کوغیر معقول سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان نے فوج پر حد سے زیادہ تنقید کی اور اب ان سے بات کرنے کا بھی کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں فوج عمران خان سے مذاکرات کیوں کرے گی۔ انہیں چاہیے کہ سیاسی قوتوں کے ساتھ بات کریں تو کل کو ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔
ان کے مطابق حکومت فی الحال عمران خان سے بات کرنے سے انکار کررہی ہے لیکن ساتھ ہی کہہ رہی ہے کہ وہ نو مئی
کے واقعات پر معافی مانگیں۔ اس لیے اندازہ یہی ہے کہ سیاسی طاقتیں مذاکرات کریں گی ۔
بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی لوگوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کی کوشش کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ’ چوروں’ سے بات نہیں کروں گا۔لیکن موجودہ حالات میں انہیں حکومت سے ہی بات کرنا ہوگی کیوں کہ فوج ‘غیر سیاسی’ ہونے کا کہہ کر ان سب باتوں سے دور ہوچکی ہے۔عمران خان کو چاہیے کہ وہ میڈیا پر آ کر نو مئی کے واقعات پر معافی مانگیں اور سیاسی قوتوں کے ساتھ چلیں۔
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کو اگر آگے چلنا ہے تو اس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ لیکن ان مذاکرات میں فوج کو شامل نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ سیاسی طاقتیں مل کر جو فیصلہ کریں گی وہی پائیدار ثابت ہوگا۔
صحافی اور تجزیہ کار عامر الیاس رانا کہتے ہیں کہ عمران خان بہت زیادہ چیزوں پر کھیلتے ہیں۔ ان کی اعلان کردہ مذاکراتی ٹیم بھی ایک طرح سے زبانی کلامی کھیلنے کے لیے بنائی گئی ہے ورنہ اس میں مراد سعید جیسے لوگوں کو شامل نہ کیا جاتا جو اس وقت روپوش ہیں۔
ان کے مطابق اس وقت پاکستان فوج ‘زخمی’ ہے اور انہوں نے واضح کردیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا ملنے تک مزید کچھ نہیں ہو گا۔
عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ الیکشن ہوجائیں گے لیکن ایسے نہیں ہوں گے جیسے عمران خان کہہ رہے ہیں۔ اب یہ بات ان کے ساتھیوں کو کافی حد تک سمجھ آگئی ہے۔
’مقابلہ ابھی جاری رہے گا‘
پاکستان میں انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں میں جوڑ توڑ اور نئی سیاسی طاقتوں کے بننے بگڑنے کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے نزدیک نئے الیکشن سے قبل صرف پی ٹی آئی کے راستے بند نہیں ہوں گے بلکہ اس بار بھی ’بادشاہ گر‘ اپنی ایک سیاسی طاقت کے لیے راہ ہموار کریں گے۔
احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ‘کنگز پارٹی’ بنانے کا مقصد ووٹ کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ ان کا اصل ہدف یہ ہوتا ہے کہ چند نشستیں جیت جائیں اور کسی بڑی جماعت کے ساتھ اتحاد کرکے ان کی حکومت بنائی جاسکے۔ اگر
مستقبل میں وہ آنکھیں دکھانا بھی چاہیں تو اس سے کوئی فرق نہ پڑے۔
عامر الیاس رانا نے کہا کہ تحریک انصاف کو 2011 میں ‘لانچ’ کیا گیا جس کے بعد 2013 میں انتخابات میں انہیں خیبرپختونخوا کی حکومت ملی۔ اس کے بعد 2014 میں دھرنا اور 2017 میں نوازشریف کو نکالنا یہ سب پلان کا حصہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ فیصلہ کرنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بہرحال موجود ہے لہذا اسے مکمل ختم نہیں کیا جائے گا بلکہ’ کٹ ٹو سائز’ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اندازہ یہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں بکھرا ہوا مینڈیٹ نظر آئے گا۔ نواز شریف واپس آئیں گے لیکن ان کے لیے بھی مشکلات ہیں ان کے کیسز عدالتوں میں جائیں گے، ریویو ہوگا اور مقابلہ ابھی جاری رہے گا۔
صابر شاکر کے خیال میں پی ٹی آئی عمران خان کا نام ہے اور یہ جماعت آج اگر ٹوٹ بھی رہی ہے تو کل اسے دوبارہ بنایا جاسکتا ہے۔
ان کے خیال میں پی ٹی آئی میں سے جہانگیر ترین اور دیگر حقیقی گروپس بنیں گے، ان گروپس کی صورت میں الیکٹیبلز اسٹیبلشمنٹ اپنے پاس رکھے گی، فوج کا سیاست میں کردار رہے گا، سیاسی جماعتوں کوایک خاص حد سے آگے نہیں جانے دیا جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کو بھی پوری حکومت نہیں دے رہی اور بیلنس آف پاور اپنے پاس رکھ رہی ہے۔