سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا قانون ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ آئین وقانون کے نظام سے باہر جائیں گے تو مسائل پیدا ہوں گے، اداروں کو آئین کے اندر رہنا ہوگا، مختلف طریقوں سے ملکی معاملات میں مداخلت ہوئی، تعلقات خراب ہوئے، ہمیں ماضی کے معاملات سےسبق حاصل کرنا چاہیے، فوج کابڑا حصہ آئین سے باہر رہاہے، اس معاملے کو ختم کرنا مشکل کام ہے، مجھے امید ہےفوج کی آگے کی لیڈرشپ آئین میں رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے خودمختار ملک کی حیثیت سے تعلقات رکھنے ہیں، ہمارے تعلقات تاریخی طورپراچھے رہے ہیں، طاقت کا استعمال اور مذاکرات اکٹھے ہوتے ہیں، آپ کے خلاف کسی دوسرے ملک کی زمین استعمال ہوتی ہے تو اس ملک کوبھی کارروائی کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھاکہ بھارت نے جوکچھ 3 سال پہلےکیا، جب تک وہ معاملات طے نہیں ہوتے، تجارت ہونا مشکل ہے، بیان کی سختی کی نہیں بلکہ بیان کی حقیقت کی بات ہوتی ہے، بھارت کی لیڈرشپ اگر ہم پر تنقید کرتی ہے تو ان کی اپنی حقیقت کیا ہے؟
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ سیاسی اور ملکی مفاد میں ہمیشہ ملکی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے، عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدےکو توڑا، ہم نہ بچاتے تو ملک ڈیفالٹ کرچکاہوتا، مشکل فیصلے ملکی مفادمیں ہوتے ہیں، آئی ایم ایف کےمفاد میں نہیں، عمران خان کی4 سال کی غفلت اور کوتاہیاں ہیں، ایک سال میں دورنہیں ہوں گی، ہمیں ملک کی معیشت کواستحکام دیناہے، معیشت کے معاملےکو ٹھیک کرنا ایک ماہ یا سال کی بات نہیں، طویل وقت درکارہے۔
سابق آرمی چیف سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ جنوری 2020 میں آرمی ایکٹ1952 میں ترمیم سے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو توسیع دیناغلطی تھی، ان کو3 سال کی توسیع دینےوالی غلطی کومنسوخ کرنےکی ضرورت تھی، میری پہلے دن سے یہ ذاتی رائے ہے وہ ترمیم ایک غلطی تھی، توسیع ایک غیر معمولی عمل ہے، اسے معمول کا کام نہیں بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اگست 2019 میں باجوہ کی طے شدہ ریٹائرمنٹ سے ساڑھے 3 ماہ قبل توسیع دی، اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے مشورہ لیے بغیر یہ توسیع دی، توسیع دینےکے بعد قانون میں ترمیم غلطی تھی، فیصلہ نومبر 2019 میں ہونا چاہیے تھا، عمران نے یہ فیصلہ کرنے میں جلدی کی، فوج کا ادارہ خوداس ترمیم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرے گا۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ ایکسٹینشن کی قانون سازی سے ایک غیرمعمولی عمل کو معمول کا کام بنادیا گیا ہے جس وقت یہ قانون سازی ہوئی اس وقت ایکسٹیشن دی جاچکی تھی اور آرمی چیف قبول کر چکے تھے، اس وقت ایکسٹیشن کی قانون سازی نہ کرنا ملک اور فوج کے مفاد میں نہیں تھا مگر اب ایکسٹیشن دینے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہونے کا قانون ختم کردینا چاہیے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ چیئرمین سینیٹ کو اعظم سواتی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے چاہئے تھے، انہوں نے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے تو اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی،
ان کا کہنا تھاکہ ن لیگ آج بھی اپنے بیانیے پر کھڑی ہے لیکن وہ فیصلے کیے جو ہماری سیاست کیلئے مشکل ثابت ہوں گےاور ہو رہے ہیں، 10 اپریل سے پہلےعمران خان کو جلدی الیکشن کا خیال نہیں تھا، حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور پھر الیکشن ہوں گے اورالیکشن میں عوام جو فیصلہ کریں گے وہ سر آنکھوں پر ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ نوازشریف کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں، وہ علاج کرانے گئے تھے اور علاج کے بعد ہی واپس آئیں گے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھاکہ پرویزالٰہی اعتماد کا ووٹ لینےکےبعد اسمبلی ضرور توڑیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ اعتماد کا ووٹ پاس کریں گے یا نہیں، وہ ووٹ کےذریعے نہیں بلکہ عدالتی حکم کےساتھ آئےجومبہم تھا، اسمبلی صرف وہی شخص تحلیل کر سکتا ہے جس کے پاس اکثریت اور اعتماد ہو۔