پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے ملک میں وسیع تر اتفاق رائے پر زور دیتے ہوئے ایک بار پھر ‘گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ” کی پیش کش کی ہے۔ شہباز شریف نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب ملک معاشی و انتظامی مسائل اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی کی جانب سے گرینڈ قومی ڈائیلاگ کی بات کی گئی ہے۔ اس سے قبل بھی سیاسی رہنما اور رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد اس طرح کے ڈائیلاگ کی بات کرتے رہے ہیں۔
صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کو ایک دوسرے کی بات سننے کے لیے میز پر لانے کا مشاورتی عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے 14 اگست کو پاکستان کے یوم آزادی کی مناسبت سے کہا تھا کہ ملک کے پائیدار اہداف کو ترجیحی بنیادوں پر حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہی طویل المدتی سیاسی استحکام کا حل ہے۔
کیا گرینڈ ڈائیلاگ سیاسی استحکام لاسکے گا؟
مبصرین موجودہ حالات سے نکلنے کے لیےسیاسی اور معاشی استحکام کے امکانات کو تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں جس میں تمام فریقین کو ایک مشترکہ ایجنڈا پر متفق بھی ہونا ہو گا اور اس پر عمل پیرا بھی ہونا ہو گا۔
تجزیہ نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل ڈائیلاگ سے جڑا ہوا ہے، جتنی جلدی وسیع تر اتفاق کرلیا جائے گا، اتنی جلدی ہی مسائل کے حل کی طرف بڑھیں گے۔جب کہ تاخیر کی صورت میں مسائل پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے داخلی، خارجی، علاقائی، اقتصادی و سیاسی مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ تمام شراکت داروں کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ فریقین کو مل بیٹھ کر معاشی فریم ورک پر بات کرنا ہوگی ,جس میں یہ اصول طے کرلیا جائے کہ معیشت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کی جائے گی۔
ان کےبقول سیاسی جماعتیں شفاف انتخابات کے لیے ایسے طریقہ کار پر اتفاق رائےکریں کہ ہارنے والا دھاندلی کا الزام نہ لگائے، اسی طرح اسٹیبلیمنٹ کے کردار کی حدود کا بھی تعین کرلینا چاہیے۔
قومی ڈائیلاگ کے لیے تحریک انصاف کی مشروط حمایت
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی قومی ڈائیلاگ میں شمولیت کی مشروط حمایت کی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہےکہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ گریںڈ ڈائیلاگ کے لیے بالکل تیار ہیں لیکن اس کے لیے پہلے عام انتخابات کی تاریخ دینا پڑے گی۔
پاکستان میں سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد تو بات چیت کرنے کو کچھ خاص رہ نہیں جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن انتخابات کرائےگا اور وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف بیٹھ کر نگران حکومت کی تشکیل پر بات کریں گے۔؎
احمد بلال محبوب کو گرینڈ ڈائیلاگ کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان سے تو مذاکرات کرسکتے ہیں لیکن حکومت سے بات نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اس لیےبھی اس بات پر ابھی تک تیار نہیں دکھائی دیتے کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کا یہ مؤقف عوام میں پذیرائی رکھتا ہے۔
گرینڈ ڈائیلاگ کون کراسکتا ہے؟
سیاسی عدم اتفاق رائے کے ماحول میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ یہ گرینڈ قومی ڈائیلاگ کون کرائے گا جس پر تمام فریقین متفق ہوسکیں۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے اراکین ملک میں فوری عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں جس کے سبب پارلیمان عملی طور پر غیر فعال ہوگئی ہے۔ اس صورتِ حال میں تحریک انصاف کے رہنما اور صدر ِ پاکستان عارف علوی کی جانب سے کردار ادا کرنے کی کوشش کو حکومتی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکرٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے مسترد کردیا ہے۔
سلمان عابد کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں مسئلہ یہ ہے سیاسی فریقین کے مابین اور سیاسی فریقین اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان اعتماد کا فقدان بہت زیادہ ہے۔
ان کے بقول حکومت اور اپوزیشن اکٹھے نہیں بیٹھ سکیں گے کیوں کہ ان کے درمیان تلخی بہت بڑھ گئی ہے ، اس کے لیے اسٹیبلیشمنٹ کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ قومی ڈائیلاگ کے حوالے سے اسٹیبلیشمنٹ شاید’ نرم مداخلت’ کررہی اور صدر عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف اور اسپیکر راجہ پرویز کے بیانات اسٹیبلیشمنٹ کی نرم مداخلت کا ہی نتیجہ ہیں۔
سلمان عابد کے مطابق صدر مملکت کا دفتر ہی قومی ڈائیلاگ کے لیے موزوں دکھائی دیتا ہے۔عارف علوی کے کرداد ادا کرنے کی پیش کش کے پیچھے اگر اسٹیبلیمشٹ کھڑی ہوجاتی ہے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ حکومت اور اپوزیشن کو ایک ساتھ بیٹھا سکتی ہے۔قومی ڈائیلاگ میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے ۔ جب کہ عمران خان صرف انتخابات کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ صدر عارف علوی کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور وہ عمران خان کو گرینڈ ڈائیلاگ میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کے لیےاپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بات چیت کے لیےضروری ہے کہ تلخ بیانات کا تبادلہ بند کیا جائے تاکہ ماحول پیدا ہوسکے۔
ان کے بقول حکومت تو ڈائیلاگ پر آمادہ ہے لیکن عمران خان کا یہ رویہ رہا ہے کہ وہ حکومت سے کسی صورت بات نہیں کریں گے۔ لہٰذا وہ اپنے رویے میں لچک دکھائیں گے تو بات آگے بڑھ سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ گرینڈ قومی ڈائیلاگ حکومت و حزب اختلاف کے درمیان تو ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس میں فوج، عدلیہ، خفیہ ادارے، سیاسی جماعتیں اور بیوروکریسی بھی شامل ہوگی تو یہ قابل عمل نہیں لگتا۔