پاکستان میں ان دنوں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماؤں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم اگلے ماہ وطن واپس آ سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے اب بھی کئی معاملات حل طلب ہیں۔
جمعرات کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر جاوید لطیف نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے نواز شریف کو سفر کی اجازت دے دی ہے اور وہ آئندہ ماہ عوام کے درمیان ہوں گے۔
نواز شریف کی وطن واپسی کے عندیے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما اب بھی اس حوالے سے واضح مؤقف دینے سے گریز کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ پانامہ ریفرنس میں سزا کاٹنے والے نواز شریف 2019 میں علاج کی غرض سے برطانیہ گئے تھے اور مقررہ مدت میں واپس نہ آنے پر عدالت نے انہیں مفرور قرار دے رکھا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی لاہور جلسے سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ مجھے نااہل کرکے نوازشریف کو ستمبر میں واپس لانے کی سازش ہورہی ہے اور یہ سازش وہی کررہے ہیں جنہوں نے ہماری حکومت گرائی۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کن وجوہات کی بنا پر ہے۔ کیا نواز شریف برطانیہ میں قانونی مشکلات کے سبب پاکستان آرہے ہیں یا سیاسی ضروریات کے پیش نظر؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف واپس آکر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے یا پھر پہلے انہیں قانونی مشکلات کا سامنا ہوگا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی میں اب بھی کئی قانونی رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں دور کرنے کے بعد ہی اُن کی وطن واپس ممکن ہو گی۔
تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ نواز شریف اس وقت تک وطن واپس نہیں آئیں گے جب تک حالات موافق نہیں ہوجاتے اور اس ضمن میں حکومت کی جانب سے قانونی اقدامات پورے نہیں کر لیے جاتے۔
گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نواز شریف تاحیات نااہل ہیں اور حکومت قانون منظور کروانے پر غور کررہی ہے جس میں نااہلی کی مدت پانچ سال کردی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی نے تاحیات نااہلی ختم کرنے پر درخواست دائر کررکھی ہے اور ان کی ںظر میں تاحیات نااہلی نہ ہی قانون کے مطابق ہے نہ ہی دستور میں کہیں لکھا ہوا ہے بلکہ یہ سپریم کورٹ کی تشریح ہے۔
مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ اگر نااہلی کی مدت پانچ سال ہوجاتی ہے تو نواز شریف یہ مدت گزار چکے ہیں اور وہ وطن واپسی پر عملی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔
برطانیہ میں قانونی ماہر بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی جماعت کی حکمتِ عملی کے طور پر فیصلہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ آنے والے انتخابات میں نواز شریف جیسے قد آور رہنماکے بغیر معاملات سنبھالنا مشکل لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) چاہتی ہو گی کہ نواز شریف جلد واپس آئیں لیکن اس کے لیے حکومت کو پہلے سے اقدامات لینا ہوں گے تاکہ ان کی واپسی پر قانونی مشکلات کم کی جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر ان کی جماعت نے یہ یقینًا غور و خوص اور جائزہ لیا ہوگا کہ آئندہ انتخابات، انتخابی مہم، بیانیہ ان سب میں نواز شریف کے آنے کا فائدہ اور نقصان کیا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی دیکھ گیا ہوگا کہ اگر انتخابات قبل از وقت ہوتے ہیں تو نواز شریف کی واپسی کی دشواریاں کتنے وقت میں حل کرلی جائیں گی۔
مجیب الرحمن شامی بھی سمجھتے ہیں کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) حکومت میں ہونے کے سبب عوامی سطح پر غیر فعال ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو آئندہ عام انتخابات میں نواز شریف کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے خلا کو پورا نہیں کیا جا سکا۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ نواز شریف وطن واپسی پر کس حد تک سرگرم ہوسکیں گے اورکیا وہ اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں گے۔
کیا نواز شریف واپسی پر جیل جائیں گے؟
قانونی ماہر بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ نواز شریف عدالت اور حکومت کی اجازت سے علاج کے لیے برطانیہ آئے تھے اور واپسی پر وہ اسپتال جائیں گے یا رائے ونڈ کو سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حتمی طور پر سزا اور قید کا ختم ہونا ان کی اپیلوں پر شنوائی سے مشروط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی اپیل پر نوٹس ہوچکے ہیں اور اپیل قابل سماعت قرار دے دی گئی ہے تو سزا معطل کرکے ضمانت کی درخواست بھی دی جاسکتی ہے۔
بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ اگر ان کی جماعت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وقت ساز گار ہے کہ نواز شریف واپسی کا سفر باندھیں تو اس حوالے سے برطانیہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کے ڈاکٹر انہیں سفر کرنے کا مشورہ نہ دیں۔
مجیب الرحمن شامی بھی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے مقدمات کی اپیلیں زیر سماعت ہیں اور وہ ان مقدمات میں ضروت پڑنے پر ضمانت حاصل کرسکتے ہیں۔
کیا نواز شریف کا ویزہ منسوخ ہو رہا ہے؟
تحریکِ انصاف کے چند رہنما یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ نواز شریف کے لندن میں قیام کی قانونی مدت میں توسیع نہیں کی جارہی لہذا وہ وطن واپس آرہے ہیں۔
برطانوی وکلا کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ بادیٔ النظر میں ایسا نظر نہیں آ رہا کہ نواز شریف قانونی طور پر واپس جانے پر مجبور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے ایسا رویہ اپنایا جو ماضی میں بے نظیر، نواز شریف یا الطاف حسین کے معاملے میں اپنایا کہ یہ مقدمات سیاسی بنیاد پر ہیں نہ کہ قانونی بنیاد پر۔
وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو نواز شریف، اسحاق ڈار یا ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے حوالے سے نہ ہی انٹرپول نے کوئی راستہ دیا اور نہ ہی برطانوی حکومت نے ملک چھوڑنے کا کہا۔
ان کے بقول برطانیہ نے عمران خان کی حکومت کو ناراض کیے بغیر نہ ہی نواز شریف کو سہولیات دیں اور نہ ہی ملک چھوڑنے کا کہا۔
بیرسٹر امجد ملک نے بتایا کہ نواز شریف کے برطانیہ قیام کا معاملہ عدالت میں ہے اور اس پر کوئی فیصلہ آنے میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے اور ابھی تک نواز شریف کو طبی بنیاد پر دیے گئے ویزہ میں ہی توسیع دی جارہی ہے۔
نواز شریف کی واپسی کا قانونی راستہ کیا ہوسکتا ہے؟
مسلم لیگ (ن) کا صحافیوں کی جانب سے متعدد بار پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہنا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا ایسا قانونی راستہ اپنانا چاہتے ہیں کہ وہ عملی سیاست میں حصہ لے سکیں۔
قانونی ماہر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں بنیادی حقوق کی بنیاد پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظر ِثانی درخواست پہلے سے دائر ہے اور دنیا میں کہیں بھی تاحیات نااہلی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ تاحیات نااہلی کا تصور آئین میں نہیں ہے اور اگر تاحیات نااہلی کو ختم کرنا ہے تو پارلیمنٹ اسے ختم کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی اس رائے کے پیشِ نظر پارلیمنٹ ایک قرارداد کے ذریعے تاحیات نااہلی کوختم کرسکتی ہے۔
امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ یہ تاحیات نااہلی اس وجہ سے بھی ختم ہوسکتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آئین کے تحت نہیں ہے اور پارلیمنٹ اسے ختم کرسکتی ہے۔