آئین کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر، وزیر اعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے
حکومت کے لیے تقریباً وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت کے سب سے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کرے کہ پاکستان کا اگلا آرمی چیف کس کو مقرر کرنا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما اور وفاقی کابینہ کے رکن نے پس پردہ ہونے والی گفتگو کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اگست کے آخر تک تقرری پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر ستمبر کے وسط تک کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ وہ حتمی فیصلہ کرنے سے قبل حکمراں اتحاد میں شامل اپنے اتحادیوں سے مشورہ کریں گے، تاہم پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایک ذریعے نے کہا ہے کہ پارٹی شاید اس فیصلے کا حصہ نہیں بننا چاہے گی کیونکہ یہ فیصلہ کرنا وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔
آئین کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر، وزیر اعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے۔
رولز آف بزنس کا شیڈول 5-اے وزیر اعظم کو آرمی چیف کی منظوری کے لیے پیش کیے جانے والے کیسز کی وضاحت کرتا ہے جس کے مطابق فوج میں لیفٹیننٹ جنرل یا دفاعی سروسز میں اس سے مساوی عہدے پر تقرر وزیر اعظم، صدر سے مشاورت کے بعد کریں گے۔
البتہ اس بات کی قانون کی کتاب میں زیادہ تفصیل سے وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ عمل کس طریقے سے کام کرتا ہے، نہ ہی کسی رینک کے افسر کی ترقی کے لیے اس مبہم شرط کے سوا کوئی خاص معیار مقرر کیا گیا ہے کہ فوج کی قیادت کے لیے منتخب جنرل ایک کور کی کمان کر چکا ہو۔
روایت یہ ہے کہ جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) چار سے پانچ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست، ان کی ذاتی فائلوں کے ساتھ وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جو انہیں وزیرِ اعظم کے پاس بھیجتی ہے تاکہ وہ جس افسر کو اس عہدے کے لیے موزوں تصور کریں اسے منتخب کریں۔
قانونی طور پر وزارت دفاع، وزیر اعظم کو نام پیش کرنے سے قبل ناموں کی جانچ کر سکتی ہے لیکن ایسا عام طور پر نہیں ہوتا اور وزارت محض ایک ڈاک خانے کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس کے بعد جرنیلوں کی قابلیت پر وزیر اعظم کے دفتر یا کابینہ میں غور کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس معاملے میں وزیر اعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ ’غیر رسمی مشاورت‘ کرتے ہیں، ان کے اپنے تاثرات بھی اہمیت رکھتے ہیں اور وہ اپنے قریبی مشیروں سے بھی اس حوالے سے بات چیت کرتے ہیں۔
معاملے پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین ایک ‘ادارہ جاتی سفارش’ کا بھی ذکر کرتے ہیں جو وزیر اعظم کو کسی خاص امیدوار کے بارے میں دی جاتی ہے، تاہم کم از کم دو سابق دفاعی سیکریٹریز نے اس دعوے کو مسترد کر دیا، ان کا اصرار ہے کہ صرف سبکدوش ہونے والے آرمی چیف وزیر اعظم کے ساتھ اپنی ’غیر رسمی مشاورت‘ کے دوران اپنی ذاتی رائے دیتے ہیں کہ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ کسے ان کے بعد ان کی جگہ یہ عہدہ سنبھالنا چاہیے۔
1972 سے اب تک ملک کے دس آرمی چیفس میں سے پانچ کا موجودہ وزیراعظم کے بڑے بھائی میاں نواز شریف نے الگ الگ دور میں بطور وزیراعظم تقرر کیا، نواز شریف کو بارہا ایسے افسران کے تقرر پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا جنہیں وہ ’اپنا بندہ‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی تقرر ان کے لیے اچھا نہیں رہا۔
اس تجربے کے سبب شریف برداران یہ سمجھنے لگے ہیں کہ شاید وہ یہ سب کبھی بھی ٹھیک نہیں کر پائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں نے پس پردہ کیے گئے انٹرویوز میں کہا کہ انہوں نے کم و بیش یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی ‘مثالی’ امیدوار کی تلاش کے لالچ کا شکار ہونے کے بجائے وہ صرف سینیارٹی کی بنیاد پر تقرری کریں گے۔
پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ معاملات کیا کروٹ لیتے ہیں، ہم کم از کم اس بات پر مطمئن ہوں گے کہ کوئی ذاتی انتخاب نہیں تھا۔
تاہم پارٹی کے اندر ایک اور گروپ کا قیاس ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف محض موجودہ سربراہ کے مشورے کے ساتھ چل سکتے ہیں۔
تبدیلی کا عمل
2016 میں تعینات ہونے والے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نومبر کے آخری ہفتے میں ریٹائر ہونے والے ہیں، آرمی چیف کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے لیکن جنرل باجوہ کو 2019 میں تین سال کی توسیع دے دی گئی تھی جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اگست میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کردی تھی، لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے سروسز چیفس کے دوبارہ تقرر پر قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔
پارلیمنٹ نے جنوری 2020 میں اس پر عمل کیا تھا اور وزیر اعظم کو اپنی صوابدید پر سروسز چیفس کی مدت میں توسیع کی اجازت دے دی تھی، تاہم قانون سازی میں 64 سال کی عمر کی حد مقرر کی گئی ہے جس عمر پر سروس چیف کا ریٹائر ہونا ضروری ہے۔
اس لحاظ سے 61 سالہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایک اور مدت کے لیے اہل ہوسکتے ہیں، اس تکنیکی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ موجودہ فوجی سربراہ مدت میں ایک اور توسیع کے خواہاں یا اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
تاہم ایک فوجی ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ نے اپنے اردگرد موجود لوگوں کو بتایا ہے کہ وہ نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی تصدیق کی ہے کہ موجودہ آرمی چیف واقعی ریٹائر ہو رہے ہیں۔
آرمی چیف ہی واحد وہ فور اسٹار عہدہ نہیں جو نومبر میں خالی ہوگا بلکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا بھی اسی وقت ریٹائر ہوجائیں گے، فور اسٹار دو جرنیلوں کے بیک وقت تقرر سے حکومت کو فوج کا سپہ سالار چننے کے لیے تھوڑی گنجائش میسر آئی ہے کہ وہ اعلیٰ افسران میں زیادہ پریشانی اور بے چینی پیدا کیے بغیر سپہ سالار کا انتخاب کر لے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت چھ سینئر لیفٹیننٹ جنرلز میں سے چار ایک ہی بیچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لاٹ کی سینیارٹی کا تعین تکنیکی بنیادوں پر کیا جاتا ہے یعنی پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ان کے تربیتی دنوں سے انہیں تفویض کردہ پی اے نمبر کے ذریعے اس کا تعین کیا جاتا ہے اور شاید اس وقت اہمیت کا حامل ہو یا شاید نہ ہو جب چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا انتخاب کیا جائے گا، اس کے علاوہ دیگر دو افراد میں سے ایک تقریباً پوری لاٹ میں سب سے سینئر ہیں جبکہ دوسرے نسبتاً جونیئر ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر
جب اگلے چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر کا فیصلہ کیا جائے گا تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر لاٹ میں سب سے سینئر ہوں گے، گو کہ ستمبر 2018 میں انہیں دو اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی لیکن انہوں نے دو ماہ بعد چارج سنبھالا جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ان کا چار سالہ دور 27 نومبر کو اس وقت ختم ہوجائے گا جب موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اپنی فوج کی وردی اتار رہے ہوں گے، چونکہ دو فور اسٹار جنرلز کے تقرر کے لیے سفارشات اور فیصلے کچھ دیر پہلے کیے جانے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو کرنا ہے کہ آیا ان کا نام شامل کیا جانا ہے یا نہیں اور حتمی فیصلہ وزیر اعظم کو کرنا ہے۔ وہ ایک بہترین افسر ہیں لیکن اس تقرر کے معاملے میں تکنیکی پیچیدگیوں کے سبب انہیں انگریزی محاورے کے مطابق ‘ڈارک ہارس’ کہا جاسکتا ہے یعنی وہ بھی اس عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر منگلا میں آفیسرز ٹریننگ اسکول پروگرام کے ذریعے سروس میں شامل ہوئے اور فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، وہ اس وقت سے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کے قریبی ساتھی رہے ہیں جب سے انہوں نے جنرل باجوہ کے ماتحت بریگیڈیئر کے طور پر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز میں فوجیوں کی کمان سنبھالی تھی جہاں اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کمانڈر ایکس کور تھے، بعد ازاں انہیں 2017 کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس مقرر کیا گیا اور اگلے سال اکتوبر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا، تاہم اعلیٰ انٹیلی جنس افسر کے طور پر ان کا اس عہدے پر قیام مختصر مدت کے لیے رہا کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے اصرار پر آٹھ ماہ کے اندر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تقرر کردیا گیا تھا، جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر منتقلی سے قبل انہیں گوجرانوالہ کور کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا جہاں وہ اس عہدے پر وہ دو سال تک فائز رہے تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا
لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ایک ہی بیچ سے تعلق رکھنے والے 4 امیدواروں میں سب سے سینئر ہیں۔ ان کا تعلق سندھ رجمنٹ سے ہے جو کہ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کا پیرنٹ یونٹ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا فوج میں بہت متاثر کن کریئر رہا ہے اور گزشتہ 7 برسوں کے دوران انہوں نے اہم لیڈرشپ عہدوں پر بھی کام کیا ہے۔ ان کو جنرل راحیل شریف کے آخری دو برسوں میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کی حیثیت سے توجہ ملنا شروع ہوئی۔ اپنی اس حیثیت میں وہ جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف کی اس کور ٹیم کا حصہ تھے جس نے شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف آپریشن کی نگرانی کی اور کواڈریلیٹرل کوآرڈینیشن گروپ (کیو سی جی) میں بھی کام کرتے رہے۔ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکا پر مشتمل اس گروپ نے ہی بین الافغان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، سرتاج عزیز کی زیر قیادت گلگت بلتستان میں اصلاحات کے لیے بننے والی کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کیا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ فوج میں عملی طور پر چیف آف آرمی اسٹاف کے بعد دوسری طاقتور ترین شخصیت بن گئے۔ اس حیثیت میں وہ خارجہ امور اور قومی سلامتی سے متعلق اہم فیصلہ سازی میں شامل رہے۔ 2021 میں چینی وزیر خارجہ وینگ ژی کے ساتھ ہونے والی اسٹریٹجک بات جیت میں بھی وہ سابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ تھے۔
اکتوبر 2021 میں انہیں کور کمانڈر راولپنڈی تعینات کیا گیا تاکہ انہیں آپریشنل تجربہ حاصل ہوجائے اور وہ اہم عہدوں کے لیے اہل ہوجائیں۔ ایک فوجی ذرائع نے ان کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ چیف آف آرمی اسٹاف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بننے کے لیے واضح امیدوار ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس
لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس موجودہ امیدواروں کے مابین بھارت کے امور پر سب سے زیادہ تجربہ کار فرد ہیں۔ اس وقت وہ چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس) ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جی ایچ کیو میں آپریشنز اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹس کی نگرانی کرتے ہوئے عملی طور پر فوج کو چلاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ 10 کور کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ 10 کور راولپنڈی میں تعینات ہوتی ہے لیکن اس کی اصل توجہ کشمیر پر ہوتی ہے اور یہ سیاسی حوالے سے بھی اہم کور ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں موجودہ آرمی چیف کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔
جس دوران یہ 10 کور کی کمانڈ کر رہے تھے اسی دوران بھارت اور پاکستان کی افواج 2003 کے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کے احترام کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کی ہی ذمہ داری تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ماضی میں انفنٹری اسکول کوئٹہ کے کمانڈنٹ رہ چکے ہیں۔ وہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پرسنل اسٹاف افسر بھی تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اعلیٰ سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے۔ اس عہدے کی وجہ سے وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور دیگر دوست ممالک کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملتے رہے ہیں۔ وہ مری میں تعینات 12 انفنٹری ڈویژن کی بھی کمانڈ کر چکے ہیں جہاں آزاد جموں و کشمیر ان کی ذمہ داری کے علاقے میں شامل تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود
بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر ہیں۔ یہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے چیف انسٹرکٹر کے طور پر بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ شمالی وزیرستان میں ایک انفنٹری ڈویژن کی کمان کر چکے ہیں جہاں سے انہیں آئی ایس آئی میں بطور ڈائریکٹر جنرل (انالسز) تعینات کردیا گیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے قومی سلامتی کے تناظر میں خارجہ پالیسی کے تجزیے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس عہدے کے باعث انہیں آئی ایس آئی کی جانب سے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رابطہ کاری کا بھی موقع ملا۔
2019 میں لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل آف کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی تعینات کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں دسمبر 2019 میں 11 کور یعنی پشاور کور میں تعینات کردیا گیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے پاک ۔ افغان سرحد کی سیکیورٹی اور اس پر باڑ لگانے کے عمل کی نگرانی کی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا، افغانستان سے اپنی فوجیں نکال رہا تھا۔
نومبر 2021 میں انہوں نے پشاور کور کی کمان لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے سپرد کردی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ اس وقت آرمی چیف کے امیدواروں میں سے سب سے زیادہ تذکرہ انہی کا کیا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ بحیثیت برگیڈیئر، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے 10 کور میں جنرل باجوہ کے چیف آف اسٹاف کے فرائض انجام دیے تھے۔ اس وقت جنرل باجوہ 10 کور کی کمان کر رہے تھے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کے وقت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید میجر جنرل تھے اور وہ پنو عاقل، سندھ میں ایک انفنٹری ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ آرمی چیف بننے کے کچھ عرصے بعد ہی جنرل باجوہ نے انہیں آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل (کاؤنٹر انٹیلی جنس) لگایا جہاں وہ داخلی سلامتی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات کے بھی ذمہ دار تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں اپریل 2019 میں جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تعینات کردیا گیا۔ دو ماہ بعد ہی انہیں حیرت انگیز طور پر ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کردیا گیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے کئی امور میں حکومت کی معاونت کی۔ ان میں توانائی کے شعبے میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے مذاکرات کرنا، حکومتی اصلاحات، معیشت کی بحالی شامل تھی۔ اس کے علاوہ وہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور پر کام کرتے رہے۔
بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے آخری دور میں وہ آرمی چیف اور عمران خان کے تنازع میں توجہ کا مرکز بنے۔ آرمی چیف انہیں کور کمانڈر پشاور تعینات کرنا چاہتے تھے لیکن عمران چاہتے تھے کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی ہی رہیں۔ بلآخر انہیں پشاور میں تعینات کردیا گیا جہاں انہوں نے ایک سال سے بھی کم عرصہ گزارا جس کے بعد انہیں کور کمانڈر بہاولپور تعینات کردیا گیا۔
کچھ سیاسی پنڈتوں کے خیال میں یہ بہت مشکل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت انہیں آرمی چیف کے لیے منتخب کرے، کیونکہ وہ گزشتہ حکومت کے دور میں بطور ڈی جی آئی ایس آئی خبروں کی زینت بنے رہے۔ تاہم اس کے بعد بھی ان کی تعیناتی ناممکن نہیں ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر
لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کا تعلق آرٹلری رجمنٹ سے ہے اور اس وقت وہ گجرانوالہ کور کی کمان کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تھے۔ بطور میجر جنرل انہوں نے 18-2017 میں 10 انفنٹری ڈویژن کی کمان کی ہے جو کہ لاہور میں تعینات ہے۔ وہ چیف آف آرمی اسٹاف سیکریٹریٹ میں ڈی جی اسٹاف ڈیوٹیز بھی رہ چکے ہیں جس کے باعث وہ کمانڈ عہدوں اور جی ایچ کیو کا خاطر خواہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ 13-2011 تک سابق صدر آصف علی زرداری کے ملٹری سیکریٹری بھی رہے ہیں۔ اپنے کریئر کے دوران وہ آج کے فیصلہ سازوں کے بہت قریب رہے ہیں۔