سیاستدان اور ماہرین بجٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

سیاستدان اور ماہرین بجٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

پاکستان کے سالانہ بجٹ برائے 2022-23 کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اس بجٹ پر مختلف طبقوں کی طرف سے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

حکومتی ارکان اسے مشکل حالات میں اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں جب کہ اپوزیشن ارکان اسے عوام پر ظلم کہہ رہے ہیں۔ تاجروں کی تنظیموں نے اس بجٹ کو مسترد کردیا ہے جب کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کر کےعوام پر اصل بوجھ پہلے ہی منتقل کردیا گیا تھا۔ اب بجٹ میں عوام پر زیادہ بوجھ منتقل نہیں کیا گیا۔

بجٹ زرعی شعبے میں انقلاب لائے گا، رکن قومی اسمبلی علی گوہر بلوچ (مسلم لیگ نون)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی علی گوہر بلوچ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں 20 سے 25 فیصد تک مہنگائی بڑھی لیکن تنخواہ دار طبقے کو ریلیف نہیں ملا لیکن ہماری حکومت نے تنخواہوں میں 15 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔

علی گوہر بلوچ کا کہنا تھا کہ زراعت کے شعبے کو خصوصی ریلیف دیا گیا ہے۔ ڈیوٹیز ختم کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بیجوں پر ڈیوٹی ختم اور فرٹیلائزر پر ڈیوٹی کم کی گئی ہے۔ اس سے ملک میں زراعت کے شعبے میں انقلاب آ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح اس وقت بھی زیادہ ہے جسے کم کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

مشکل حالات میں بہترین بجٹ ہے، رکن اسمبلی ناز بلوچ (پاکستان پیپلز پارٹی)

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی ناز بلوچ نے کہا کہ ایسے حالات میں جب معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی تھی، حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا اور دیگر شعبوں میں بہتری لے کر بھی آ رہی ہے۔ کئی شعبوں میں سبسڈی ملی ہے، اس لیے اسے کامیاب بجٹ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک وقت مشکل وقت ہے اور عوام پر بوجھ بڑھا ہے لیکن کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ حکومت نے گنجائش سے زیادہ بہتر بجٹ پیش کیا ہے۔

عوام کو مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے، سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم (پی ٹی آئی )

سینیٹ میں قائد ایوان اور پی ٹی آئی کے سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ تحریک انصاف نے جس طرح کی مشکلات کا سامنا کیا، اس سے کہیں بہتر حالات موجودہ حکومت کو ملے۔ پی ٹی آئی حکومت نے کرونا وبا کے ہوتے ہوئے 6 فیصد جی ڈی پی دی۔ ہر شعبہ زندگی میں بہتری آئی لیکن موجودہ حکومت ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کو متنازع بنا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک کو ایسے راستے پر لے جا رہی ہے جہاں سے واپسی بہت مشکل ہے۔ یہ ایک پھلتا پھولتا ملک تھا جسے بقول ان کے ’امپورٹڈ حکومت‘ کے حوالے کیا گیا ہے۔ اس بجٹ میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے اور ان پر نئے ٹیکسز لگا کر عوام کو مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے۔

بجٹ سے قوم کو عذاب میں ڈال دیا گیا ہے، اجمل بلوچ صدر انجمن تاجران پاکستان

انجمن تاجران پاکستان کے صدر اجمل بلوچ نے کہا کہ ہم اس بجٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔موجودہ حکومت نے قوم کو مشکل میں نہیں بلکہ عذاب میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری کے سامان پر ڈیوٹی فری اور کاروباری طبقے کی مشینری پر ڈیوٹی ڈبل سمجھ سے

بالاترہے۔ بجٹ میں کسی قسم کا کوئی ریلف نہیں دیا گیا۔ بجلی کے بلوں پر فکس انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس لگانے کی منطق سمجھ نہیں آئی۔ ہر تاجر پہلے ہی بجلی کے بلوں پر فکس انکم ٹیکس اور فکس سیل ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

موجودہ معاشی حالات میں ایسا ہی بجٹ متوقع تھا، ڈاکٹر عابد سلہری ماہر اقتصادیات

ماہر اقتصادیات ڈاکٹرعابد سلہری کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا ہی بجٹ آ سکتا تھا۔ حکومت نے پہلے ہی بڑے اقدامات کر لیے جن میں بجلی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت نے مزید 1400 ارب کے ٹیکسز جمع کرنے کے لیے کچھ نئے ٹیکسز بھی عائد کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں حکومت کے پاس صوبوں کو حصہ دینے کے بعد 4904 ارب روپے ہوں گے۔ 4600 ارب روپے حکومت کو آئندہ سال کے لیے حاصل کرنا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض اخراجات ایسے ہیں جو لازمی کرنا ہوں گے، مثلاً 3950 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی پر، دوسرا روزانہ اخراجات 1180 ارب روپے اور تیسرا دفاعی بجٹ ہے جس میں آپ نے 1523 ارب دینے ہیں۔ سبسڈیز اور پی ایس ڈی پی کے لیے پیسے الگ رکھنے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ قرضے حاصل کر کے خسارے سے نکلا جائے۔

عابد سلہری نے کہا کہ عوام پر اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان پر اثر پڑنے والی بیشتر چیزوں پر پہلے ہی ٹیکس عائد کیا جا چکا ہے، جس میں فیول اور بجلی پر ٹیکس شامل ہیں۔ اس بجٹ میں اپر مڈل کلاس اور اپر کلاس کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان سے ٹیکس حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کی گئی ہیں، عارف حبیب بزنس مین

معروف بزنس مین عارف حبیب نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی جو شرائط ہیں ان کی موجودگی میں حکومت نے موت دکھا کر بخار پر راضی کیا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت نے سپر ٹیکسز میں اضافہ کیا ہے اور کمپنیوں پر ٹیکس لگانے سے حکومت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ جب کہ ریئل سٹیٹ پر ٹیکس میں اضافہ بہتر اقدام ہے۔