پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان کے مطالبے پر انتخابات قبل از وقت نہیں کرائیں گےاور اگر فوج اقتدار میں آنا چاہتی ہے تو ہم بلا رکاوٹ حکومت چھوڑنے کو تیار ہیں۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں خورشیدہ شاہ نے کہا کہ اتحادی جماعتیں شوق سے حکومت میں نہیں آئیں، معیشت کی خطرناک حد تک خراب صورت حال میں اسے سنبھالنا آسان نہیں ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیم نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہےبصورتِ دیگر ملک میں خون ریزی کا خطرہ ہے؟ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ حکومت اپنی مدت مکمل کرے گی اور قبل از وقت انتخابات کے بارے میں ہمیں اب نہیں سوچنا۔
ان کے بقول، “ہم نے حکومت شوق سے نہیں لی، اس خطرناک وزن کو اٹھایا ہے اور اگر کسی میں اس وزن کو اٹھانے کی اتنی طاقت ہے تو وہ اٹھا لے۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر خورشید شاہ نے کہا کہ حکومتی جماعتیں چاہتی تھیں کہ انتخابی اصلاحات کے بعد رواں سال اکتوبر یا نومبر میں انتخابات کرائے جائیں لیکن عمران خان کی قبل از وقت انتخابات کی دھمکی کے بعد اس فیصلے کو ترک کردیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان کے مطالبے پر ہم انتخابات کی تاریخ دے رہے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات اگست 2023 میں ہوں گے۔
انہوں نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں استحکام نہیں چاہتے بلکہ ان کی سیاست انتشار پر مبنی ہے۔ خورشید شاہ کے بقول، سربراہ تحریکِ انصاف گزشتہ ایک ماہ سے حکومت کے خلاف جلسے کررہے ہیں لیکن ان عوامی اجتماعات میں وہ اپنی حکومت کا ایک کارنامہ بھی نہیں بتا سکے۔
‘قتل و غارت ہوئی تو مقدمہ عمران خان پر ہو گا’
خورشید شاہ نے کہا کہ اگر عمران خان نے اسلام آباد کی جانب مارچ کے دوران قانون ہاتھ میں لیا تو پھر حکومت حرکت میں آئے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران انہوں نے بھی لانگ مارچ کیا لیکن عمران خان اور ان کے ساتھی پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ یہ خونی لانگ مارچ ہوگا۔
خورشید شاہ کے بقول اسلام آباد کی جانب مارچ کے دوران اگر کوئی نقصان یا قتل و غارت ہوئی تو اس کے ذمہ دار عمران خان ہوں گے اور ان کے خلاف ہی مقدمات بنائے جائیں گے۔
عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے کے اعلان پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے شاہراہِ دستور پر احتجاجی دھرنے کی اجازت نہیں ہے۔حکومت قیامِ امن کے لیے فوج کو اسلام آباد میں بلانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اگر امن و امان کو خراب کیا گیا تو پولیس اور رینجرز کو استعمال کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ عمران خان نے اسلام آباد کے سرینگر ہائی وے پر کارکنان کو جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم منگل کو انہوں نے کارکنان کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔
لانگ مارچ سے قبل تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے حوالے سےخورشید شاہ نے کہا کہ اگر حزبِ اختلاف کے رہنما کی جانب سے قانون ہاتھ میں لیا گیا تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔
عمران خان کی جانب سے فوج کو غیر جانبدار رہنے کے مشورے پر ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ کا نیوٹرل کے حوالے سے فلسفہ تھا کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں اسٹیبلیشمنٹ کا (نیوٹرل) غیر جانبدار ہونا ہی عمران خان کی مخالفت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی محاز کھڑا نہیں کیا بلکہ آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے۔
‘پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے میں جلدی نہیں’
خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے منظور کرنے میں جلدی نہیں ہے کیوں کہ وہ انتقام نہیں استحکام کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ایوان میں کھڑے ہوکر مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے ان کا استعفی منظور کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ قانونی مجبوری ہے۔البتہ وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر اراکین مستعفی ہونا نہیں چاہتے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے اراکین کے مستعفی ہونے کے اعلان کے باوجود پارلیمنٹ بدستور کام کررہی ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔
‘جان کو خطرے سے متعلق عمران خان چیف جسٹس کو آگاہ کریں’
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے جان کو خطرے سے متعلق جب خورشید شاہ سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا “عمران خان نے جان کو خطرے سے متعلق حکومت کو بتایا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ عمران خان حکومت کو بتا دیں کہ انہیں کس سے خطرہ ہے اور اگر حکومت کو بتانا نہیں چاہتے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے علم میں لے آئیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تاثر دیا کہ کوئی اہم شخصیت ان سے بات کرنا چاہتی ہے جو ایک بڑا ڈراما تھا۔