پاکستان میں گزشتہ دو ماہ سے جاری آئینی اور سیاسی بحران کے دوران جہاں سیاسی افراتفری اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، تو وہیں ملک کے چاروں صوبے بھی گورنرز کے بغیر چل رہے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گورنرز کے بغیر حکومتی اُمور چلانا ممکن نہیں۔
تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اُن کی تجویز سے مقرر کردہ تین گورنر مستعفی ہو چکے ہیں جب کہ ایک کو نئی اتحادی حکومت نے برطرف کر دیا تھا۔
اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بلائے گئے اجلاس سے قبل اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کو برطرف کر کے عمر سرفراز چیمہ کو گورنر مقرر کیا تھا۔ تاہم نئی وفاقی حکومت نے رواں ماہ اُنہیں بھی برطرف کر دیا تھا۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سندھ کے گورنر عمران اسماعیل، خیبرپختونخوا کے گورنر شاہ فرمان اور گورنر بلوچستان ظہور آغا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے تھے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پنجاب کے لیے بلیغ الرحمٰن جب کہ سندھ کے لیے نسرین جلیل کو بطور گورنر نامزد کیا ہے، تاہم صدرِ مملکت نے ان ناموں کی تاحال منظوری نہیں دی۔
President Dr. Arif Alvi strongly rejects Prime Minister’s advice to remove Governor PunjabThe President has conveyed to the Prime Minister of Pakistan that Governor Punjab cannot be removed without his approval. pic.twitter.com/72OIVfKJEW— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) May 9, 2022
گورنر کے عہدے کی اہمیت
آئینِ پاکستان کے مطابق صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر گورنر تعینات کرتے ہیں۔ جس طرح صدرِ پاکستان ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اسی طرح گورنر صوبے میں صدر کا نمائندہ اور آئینی سربراہ ہوتا ہے۔
گورنر ہنگامی بنیادوں پر آرڈیننس جاری کرنے کے علاوہ اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے، وزیرِ اعلٰی اور صوبائی وزرا سے حلف لینے سمیت دیگر ریاستی اُمور سرانجام دیتا ہے۔
یہ ایک رسمی عہدہ ہے، تاہم اسمبلی میں منظور ہونے والے مسودۂ قانون پر گورنر کے دستخط کے بعد ہی قانون بنتے ہیں۔
سینئر قانون دان عرفان قادر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ آئینِ پاکستان کے تحت گورنر کا صوبے میں اہم کردار ہوتا ہے۔اُن کے بقول گورنر کے بغیر صوبے کا آئینی ڈھانچہ مکمل نہیں ہوتا اور نہ ہی ایگزیکٹو اتھارٹی صحیح طریقے سے چل سکتی ہے۔
عرفان قادر کہتے ہیں کہ چاروں صوبوں میں گورنرز نہ ہونے سے ایک آئینی بحران ہے۔ کیوں کہ قانون سازی کا عمل ایک طرح سے رکا ہوا ہے۔
صدر گورنر کی تعیناتی میں تاخیر کر سکتا ہے؟
عرفان قادر کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 101 میں گورنر کی تعیناتی کا طریقہ واضح ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر گورنر تعینات کرے گا۔
اُن کے بقول آئین صدرِ پاکستان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ وزیرِ اعظم کی جانب سے دیے گئے نام کو نظرانداز کرے، لہذٰا صدر ایک طرح سے پابند ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کی جانب سے دیے گئے نام کی منظوری دے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت صدرِ پاکستان عارف علوی پر یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس کو نظرانداز کر کے آئین شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
صدرِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ آئین کے تابع ہیں اور کوئی بھی غیر آئینی کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
‘ریاستی معاملات میں بے یقینی کی فضا ہے’
سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ اہم ریاستی معاملات میں بے یقینی کی فضا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گورنرز کی تقرری کے معاملے پر صدر الگ رائے رکھتے ہیں جب کہ وزیرِ اعظم کی مرضی کچھ اور ہے۔ تاہم سب آئین کے تابع ہیں اور جو آئین میں لکھا ہے اسی پر سب کو عمل کرنا چاہیے۔
معین الدین حیدر کے مطابق اس وقت ضروری ہے کہ مستقل بنیادوں پر گورنر زتعینات کیے جائیں تاکہ حکومتی نظم و نسق چل سکے۔
سابق گورنر سندھ کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ملک میں سیاسی اور آئینی بحران آتے رہے ہیں لیکن اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کسی کو احساس نہیں کہ یہ معاملات فوری طور پر حل کرنے چاہئیں۔
قائم مقام گورنر کا کردار
معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ پنجاب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کو قائم مقام گورنر بننا چاہیے، لیکن وہ اس سے انکار کر رہے ہیں جب کہ باقی صوبوں میں بھی قائم مقام گورنر ایک طرح سے غیر فعال ہیں۔
اُن کے بقول مستقل گورنر کی موجودگی میں ہی صوبے کے معاملات درست اندازمیں آگے بڑھ سکتے ہیں، لہذٰا ضروری ہے کہ تمام گورنرز تعینات ہوں تاکہ انتظامی اُمور کو چلایا جا سکے۔