بھارت میں ایک بار پھر تاج محل کا تنازع سرخیوں میں ہے اور اس بار حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما معاملے کو عدالت میں لے گئے ہیں۔مبصرین کے مطابق توقع ہے کہ تاج محل سے متعلق دائر درخواست عدالت سماعت کے لیے منظور کر لے گی۔
تاج محل کے تہہ خانوں میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کا دعویٰ، معاملہ ہے کیا؟
بی جے پی کے ایودھیا کے میڈیا انچارج رجنیش سنگھ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ ہفتے درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ تاج محل کے زیرِ زمین 22 کمروں میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں اور ہندو علامتوں کی کندہ کاری ہے اس لیے ان کمروں کو کھول کر ‘تاریخی حقائق’ عوام کے سامنے لائے جائیں۔
یہ درخواست الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ میں دائر کی گئی ہے۔ تاہم رجسٹری کی جانب سے اسے آگے بڑھائے جانے کے بعد عدالت طے کرے گی کہ اس پر سماعت کی جائے یا نہیں۔
چھ برس قبل بھی تاج محل سے متعلق ایک درخواست عدالت میں دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کی ملکہ ممتاز کا مقبرہ نہیں بلکہ بھگوان شیو کا مندر ہے اور اس کا نام تاج محل نہیں بلکہ ‘تیجو مہالیہ’ ہے۔
تنازع کی وجہ کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ تنازع اس وقت سامنے آیا تھا جب 1989 میں ہندوتوا نظریات کے حامل ایک متنازع تاریخ داں پی این اوک کی کتاب ‘تاج محل: دی ٹرو اسٹوری’ شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں مصنف نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل کے مقام پر ویدک مندر تھا جس کی تعمیر سنہ 1155 میں یا بھارت میں مغلوں کی آمد سے قبل ہوئی تھی۔
مصنف کا دعویٰ ہے کہ اس مندر کو راجہ پرم داری دیو نے تعمیر کرایا تھا اور مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اسے راجہ جے سنگھ سے جبراً حاصل کیا تھا۔
پی این اوک اپنے دعوے کے ثبوت میں کئی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں لیکن مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی بھی دعویٰ ٹھوس تاریخی حقائق پر پورا نہیں اترتا۔
بہت سے لوگ پی این اوک کو مستند تاریخ داں ہی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ وہ ایک ‘جعلی’ مؤرخ ہیں۔تاہم بہت سے قوم پرست یا احیا پرست ہندو پی این اوک کی کتابوں اور ان کی آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بھارت کے معروف مؤرخین تاج محل سے متعلق پی این اوک کے دعوے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ انہیں ‘ہسٹورین’ ماننے کے بجائے ‘متھسٹورین’ یعنی مفروضہ پسند قرار دیتے ہیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پی این اوک یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اسلام اور مسیحیت دونوں ہندوازم سے نکلے ہیں اور برطانیہ کے شہر لندن میں ویسٹ منسٹر ایبے چرچ بھی شیو کا مندر تھا۔
وہ اپنی کتاب ‘کرسچینٹی کرشن، نیتی ہے’ میں لکھتے ہیں کہ ‘یسوع مسیح تیرہ سے تیس سال کی عمر میں بھارت آئے تھے اور یہاں انہوں نے کرشن نیتی (یعنی کرشن کی سیاست) سیکھی تھی جو آگے چل کر مسیحیت ہو گئی۔
بائیں بازو کے نظریات کے حامل ایک دانشور اور مصنف سبھاش گتاڈے پی این اوک پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ پی این اوک 2007 میں چل بسے تھے لیکن ان کے نظریات اب بھی زندہ ہیں۔
تاریخ داں کے این پنکر اپنے ایک لیکچر میں کہتے ہیں کہ بی جے پی تاریخ کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی ہے اور وہ اسکولوں میں پڑھائے جانے والے موجودہ نصاب کو تبدیل کرکے ماضی کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پنکر کے مطابق بی جے پی تعلیمی و تحقیقی اداروں کو بھی زعفرانی رنگ دینا چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ ثانوی درجات کے نصاب تیار کرنے والے حکومت کے ادارے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) نے حال ہی میں دسویں اور بارہویں جماعت کی کتاب سے بھارت میں مسلم عہد اور مغلوں کے دور کو نکال دیا ہے۔ اس نے پاکستان کے شاعر فیض احمد فیض کی دو نظموں کو بھی نصاب سے خارج کر دیا ہے۔
‘تاج محل کو شیو مندر کہنے والے تاریخ سے لاعلم ہیں’
عہد حاضر کی ایک معروف تاریخ داں رعنا صفوی کہتی ہیں کہ جو لوگ تاج محل کو شیو مندر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں انہیں تاریخ کا علم نہیں۔ وہ تاریخ نہیں پڑھتے بلکہ جو کچھ واٹس ایپ پر مواد پھیلا دیا جاتا ہے اسی کو تاریخ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب 1631 میں ممتاز محل کا انتقال ہوا تو شاہ جہاں نے انہیں اکبرآباد یعنی آگرہ میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور وہاں ایک مہتم بالشان مقبرہ تعمیر کرانے کا تہیہ کیا تھا۔
رعنا صفوی کے مطابق ممتاز محل کی تدفین کے لیے آگرہ میں دریائے جمنا کے ساحل پر ایک مناسب جگہ ملی جس کے مالک اکبر بادشاہ کے جنرل راجہ مان سنگھ کے پوتے راجہ جے سنگھ تھے۔ وہاں ان کی ایک شاندار حویلی تھی۔
رعنا صفوی ڈبلیو ای بیگلی اور ضیاءالدین ڈیسائی کی کتاب ‘تاج محل: دی ایلومائنڈ ٹومب’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی
ہیں کہ راجہ جے سنگھ اس مبارک مقصد کے لیے اپنی حویلی او رجگہ مفت میں دینے کو تیار تھے لیکن شاہ جہاں اس
کے لیے تیار نہیں ہوئے اور انہوں نے اس کے عوض انہیں ایک دوسری حویلی دی۔
رعنا صفوی کہتی ہیں ممتاز محل کے مقبرے کی تفصیل دو کتابوں میں موجود ہے اور اس وقت جو شاہی فرمان جاری ہوا تھا اس کا انگریزی ترجمہ بھی موجو ہے۔ اس شاہی فرمان کے بموجب جے سنگھ کی حویلی کے عوض انہیں چار حویلیاں دی گئی تھیں۔
رعنا صفوی کہتی ہیں کہ مغل بڑی مہارت اور دلچسپی کے ساتھ دستاویزات تیار کراتے تھے۔ ان کے دور میں ہزاروں دستاویزات تیار ہوئی تھیں جن میں سے کچھ غائب ہو گئیں اور کچھ اب بھی موجود ہیں۔
ان کے مطابق 1631 میں ممتاز محل کو آگرہ میں دفن کرنے کے فیصلے کے فوراً بعد حویلی دی گئی تھی لیکن اضافی چار حویلیوں کے تبادلے میں دو سال لگے۔ اس کا ذکر 28 دسمبر 1633 کے شاہی فرمان میں موجود ہے۔ یہ فرمان کپاڑدوارہ کلکشن جے پور میں ہے۔
تاج محل کے 22 کمروں میں کیا ہے؟
الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں تاج محل کے جن 22 کمروں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ان کے بارے میں رعنا صفوی کہتی ہیں کہ وہ بادشاہ او ران کے اہل خانہ کے استعمال کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔
ان کے مطابق آج جہاں سے سیاح تاج محل تک جاتے ہیں بادشاہ وہاں سے نہیں جاتے تھے بلکہ وہ دریائے جمنا کی طرف سے زیرِ زمین راستے سے وہاں پہنچتےتھے اور وہیں اصل قبر کے جگہ پر وقت گزارتے تھے۔
ان کمروں کی تصاویر ایبا کوچ کی کتاب ‘دی کمپلیٹ تاج محل’ میں شائع کی گئی ہیں۔
آگرہ کی عدالت میں پہلی اپیل
سب سے پہلے 2015 میں آگرہ کی ایک عدالت میں چھ وکلا نے ایک درخواست دائرکی تھی جس میں دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل کے مقام پر کبھی مندر تھا۔
ایک وکیل ہری شنکر جین نے پی این اوک کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مندر کی تعمیر راجہ پرم داری دیو نے 1155 میں کرائی تھی جب کہ شاہ جہاں نے 1632 میں اسے حاصل کیا اور اس کے بعد مندر کو ایک اسلامی فن تعمیر میں تبدیل کر دیا گیا۔
محکمۂ آثار قدیمہ کیا کہتا ہے؟
اگست 2017 میں محکمۂ آثار قدیمہ نے آگرہ کی عدالت میں ایک حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں کہا تھا کہ تاج محل کے مقام پر کبھی مندر نہیں تھا اور یہ ایک مقبرہ ہے۔
یہ حلف نامہ 1920میں حکومت کی جانب سے ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے تاج محل کو ایک محفوظ عمارت قرار دیے جانے کی بنیاد پر داخل کیا گیا تھا۔
محکمۂ آثار قدیمہ نے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ “تاریخی طور پر اور یہاں تک کہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے تاج محل کے نام سے ایک قدیم یادگار موجود ہے۔ دنیا کے ساتویں عجوبے کے طور پر تسلیم کیے جانے کی وجہ سے حکومت نے اسے قومی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔”
بی جے پی رہنماؤں کے دعوے
بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ ونے کٹیار نے اکتوبر 2017 میں تاج محل کے شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔انہوں نے ایک سال بعد پھر یہی دعویٰ کیا اور کہا کہ تاج اور تیج (مندر) میں کوئی خاص فرق نہیں۔ یہ ہمارا مندر ہے اور اسے جلد ہی مندر میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
بعدازاں بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی سنگیت سوم نے اپنے ایک بیان میں تاج محل کو بھارتی ثقافت پر ایک داغ قرار دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ شاہ جہاں ہندوازم کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
تجزیہ کار اور مبصرین تاج محل سے متعلق دعووں اور اس جیسے دیگر مطالبات کو ملک میں منافرت پھیلانے سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا مقصد عہد مغلیہ کی تاریخ کو عوامی ذہنوں سے مٹا دینا ہے۔
دہلی یونیورسٹی میں استاد اور سماجی کارکن پروفیسر اپوروانند تاج محل کے شیو مندر ہونے کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ لوگ تاریخ پڑھتے نہیں اور کچھ لوگ تاریخ کو مانتے نہیں۔
ان کے خیال میں ایک طبقہ ہندوؤں کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ آپ سے کچھ چھین لیا گیا تھا جسے اب واپس لینے کا وقت آگیا ہے اورمسلمانوں کی تعمیر کردہ تمام یادگاروں کے بارے میں یہی طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول اسی بیانیے کی وجہ سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت اور دوری پیدا ہوتی ہے۔
پروفیسر اپوروانند کے مطابق اس وقت یہ پرچار کیا جا رہا ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے راجہ جے سنگھ سے ممتاز محل کی تدفین کے لیے تاج محل کی موجودہ جگہ کو جبراً حاصل کیا تھا۔
بی جے پی کیا کہتی ہے؟
بی جے پی کے کسی مرکزی رہنما کی جانب سے اب تک تاج محل کو شیو مندر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔
جب ونے کٹیار نے اسے مندر ہونے کا دعویٰ کیا تو اس وقت کے بی جے پی کے ایک ترجمان نے اسے ونے کٹیار کی ذاتی رائے قرار دیا تھا۔
اُس وقت کے بی جے پی ترجمان نلن کوہلی نے کہا تھا کہ ونے کٹیار نے جو کچھ کہا وہ انھوں نے آئین میں دیے گئے اظہار کی آزادی کے حق کے تحت کہا ہے۔ یہ ان کا اپنا خیال ہے پارٹی کی ترجمانی نہیں۔
ادھر الہ آبا دہائی کورٹ میں اپیل دائر کیے جانے کے بعد شدت پسند ہندو تنظیموں میں خوشی کا ماحول ہے کیسری لباس میں ملبوس کچھ افراد پیر کے روز مٹھائیاں لے کر تاج محل پہنچے۔ وہ سیاح بن کر تاج محل میں داخل ہونے اور وہاں مٹھائی تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن شک ہونے پر پولیس نے انہیں داخلے سے روک دیا تھا۔