پاکستان میں جاری سیاسی و معاشی بحران کے تناظر میں بعض ماہرین کی تجویز ہے کہ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت لائی جائے تاکہ بروقت مشکل فیصلے کر کے ملک کو معاشی بحران سے نکالا جائے، جس کے بعد ملک میں انتخابات کروا دیے جائیں۔
ماہرین کے مطابق اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکمراں اتحاد کے درمیان اس بارے میں گہرا اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ انتخابات قبل از وقت کرائے جائیں یا حکومت موجودہ اسمبلی کی بقیہ مدت پوری کرے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون سمجھتی ہے کہ اگر اسوقت انتخابات ہوتے ہیں تو اسکا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا۔ اور اسکی مخالف سیاسی جماعتیں نقصان میں رہیں گی۔ لیکن اگر اتحادی حکومت کو سال ڈیڑھ سال کا وقت مل جائے تو وہ معاشی حالات بہتر کرکے زیادہ عوامی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔
اس بارے میں بھی سیاسی امور کے ماہرین کے درمیان اختلاف رائے ہے کہ اگر اس وقت انتخابات ہوتے ہیں تو کون سی جماعت زیادہ فائدے میں رہے گی۔
ڈاکٹر ہما بقائی پاکستان کے سیاسی امور کی ایک ماہر ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ فوری الیکشن کی صورت میں سب سے زیادہ فائدے میں پیپلز پارٹی رہے گی۔ جس کی دلیل وہ یہ دیتی ہیں کہ پیپلز پارٹی نے جو وزارتیں لی ہیں، وہ سب ایسی ہیں کہ جن کے ذریعے وہ ملکی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو تسلیم کروا سکتی ہے۔ خاص طور پر بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں میں پیسے تقسیم کر کے وہ ہر پارٹی سے زیادہ اپنی پارٹی کے لئے عوامی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ جب کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے پاس پٹرولیم اور توانائی جیسی وزارتیں ہیں۔ جہاں پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی کی طویل دورانیوں کی لوڈ شیڈنگ انہیں عوام میں غیر مقبول بنائے گی۔ جس کی قیمت انہیں پولنگ بوتھ پر ادا کرنا پڑے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی حمایت میں اسوقت جو جوش اور جذبہ ہے وہ وقتی ہے۔ اور اس کا یہ لازمی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ انہیں ووٹ بھی زیادہ ملیں گے۔
پاکستان کی معیشت کو اگر فوری طور پر سہارا نہ ملا تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ اس مہینے کی 22 تاریخ کو دوحہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ہونی ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنے والے آٹھ نو دنوں میں پاکستان کے اندر کیا آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا ممکن ہو گا۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو آئی ایم ایف کا رویہ کیا ہوگا۔ حکومتی اتحاد، خاص طور سے وزیر اعظم شہباز شریف کی پارٹی کا سیاسی مستقبل اس وقت زیادہ تر آئی ایم ایف یا
دوست ملکوں سے ملنے والی امداد پر منحصر نظر آتا ہے۔
بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ خود ہاؤس آف شریف کے اندر بھی اختلافات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن پاکستان کے ایک اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں۔
انتخابات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ نون لیگ میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، انتخاب کو مؤخر کیا جائے، اگر سال ڈیڑھ سال کا وقت مل گیا اور اس کو پیسے بھی مل گئے اور حالات کچھ ٹھیک ہو گئے تو سب سے زیادہ فائدہ نون لیگ کو ہو گا۔ اور اگر قبل ازوقت انتخابات ہوتے ہیں۔ تو پاکستان تحریک انصاف کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
پاکستان میں اس وقت زمینی حقائق سے قطع نظر بیانئے کی ایک جنگ بھی جاری ہے جس کا سب سے بڑا میدان سوشل میڈیا ہے جہاں نوجونوں کی بری تعداد موجود رہتی ہے۔ ماہرین کے بقول اس وقت نوجوانوں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے حق میں ہے۔ کیونکہ دوسرا کوئی مضبوط بیانیہ موجود نہیں ہے اور اب ایک جوابی بیانیہ لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور جس کا بیانیہ آخر میں کامیاب ہوگا۔ آخری جیت بھی اسی کی ہو گی۔