اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ملک کی آئینی سیاسی صورت حال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیےکہ آئین کے احکامات رولز سے بالادست ہوتے ہیں ، ہمارے سامنے سوال ہے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کیا آئینی حیثیت ہے؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آئینی سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
خاتون درخواست گزار کی درخواست مسترد
سماعت کے آغاز میں خاتون درخواست گزار نے عدالت میں درخواست دی کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آجائے گا، اسد مجید کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا۔
خاتون کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے۔
عدم اعتماد آنے کے بعد اسپیکر کے پاس ماسوائے ووٹنگ تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں: رضا ربانی کے دلائل
دورانِ سماعت رضا ربانی نے کہا کہ چاہتے ہیں آج دلائل مکمل ہوں اور عدالت مختصر حکم نامہ جاری کردے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم جاری کریں گے اگر سارے فریقین دلائل مکمل کرلیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ میں عدالت کو تحریری دلائل دےرہا ہوں،15 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا۔
رضا ربانی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پرمبنی ہے،عدم اعتماد جمع کرانےکے بعد سے 9 باربدنیتی پرمبنی اقدامات کیےگئے، تحریک عدم اعتماد 8 مارچ سے زیر التوا تھی، ڈپٹی اسپیکر نےپارلیمنٹ کے سامنے دستاویزات رکھے بغیر رولنگ دےدی، قومی اسمبلی رولز28 کے تحت ڈپٹی اسپیکرکے پاس اختیارات ہوں تب بھی رولنگ نہیں دےسکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیرقانونی ہے، تحریک عدم اعتمادووٹنگ کے بغیر مسترد نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے کہاکہ عدم اعتماد آنے کے بعد اسپیکر کے پاس ماسوائے ووٹنگ تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آرٹیکل 69 کا تحفظ نہیں رکھتی،ڈپٹی اسپیکرکی آرٹیکل 5 کو بنیاد بنا کر رولنگ خلاف آئین ہے، آئین کےمطابق تحریک عدم اعتماد پر دی گئی مدت میں ووٹنگ ہونا لازمی ہے۔
عدالت نیشنل سکیورٹی کونسل میٹنگ کے منٹس اورکیبل طلب کرنےکا حکم دے:
رضا ربانی کی استدعا
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلی نہیں توڑ سکتے، تحریک عدم اعتماد کو آئین کے تحت مسترد کیا نہیں جاسکتا، تحریک عدم اعتماد صرف تب ختم ہوسکتی ہےجب جمع کرانے والے واپس لے لیں۔
رضا ربانی نے استدعا کی کہ عدالت نیشنل سکیورٹی کونسل میٹنگ کے منٹس اورکیبل طلب کرنےکا حکم دے۔
(ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی کارروائی پڑھ کر سنادی اور استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کرے۔
چیف جسٹس نے 31 مارچ کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے منٹس طلب کرلیے
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے 31 مارچ کے اجلاس کے منٹس منگوا لیے۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری اجلاس کے منٹس پیش کریں۔
جسٹس منیب اختر ریمارکس دیےکہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے طریقہ کار پر آئین خاموش ہے، کیا ایک بار 20 فیصد اراکین کی حمایت سےتحریک پیش ہونے کےبعد اسپیکر کا اختیار نہیں رہتا؟ کیا اسپیکر تحریک پیش ہونے پر صرف ووٹنگ کراسکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت کے بعد بحث کا مرحلہ آتا ہے،تحریک عدم اعتماد کے آئینی یا غیرآئینی ہونے پر بحث ہوئی ؟ ہمارے سامنے سوال ہے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کیا آئینی حیثیت ہے؟ آئین کے احکامات رولز سے بالادست ہوتے ہیں۔تحریک عدم اعتمام پیش ہونےکے وقت 20 فیصد اراکین اسمبلی موجود تھے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونےکے وقت 20 فیصدممبران کی موجودگی کا مقصد کیا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل سوال ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی یاغیرقانونی ہونےکا ہے،کیا جوڈیشل ریویو سے رولنگ واپس ہوسکتی ہے۔
ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نےکہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے رولنگ واپس کر دے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے غیرقانونی عوامل کو عدالت جانچ سکتی ہے، اس پر مخدوم علی خان نےکہا کہ عدالت تحریک عدم اعتماد پر غیر قانونی عوامل کو جانچ سکتی ہے۔
آپ عدالت کے دروازے پارلیمنٹ کی کاروائی کے لیے کھول رہے ہیں،جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیےکہ پارلیمنٹ میں چھوٹی سی غیرقانونی حرکت پر عدالت کو مداخلت کا اختیار ہوگا، آپ عدالت کے دروازے پارلیمنٹ کی کاروائی کے لیے کھول رہے ہیں، کیاآئین یہ کہتاہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی ہر غیر قانونی حرکت پر فیصلہ دے سکتی ہے؟ سپریم کورٹ پارلیمانی کاروائی یارولنگ غیر قانونی قرار دینا شروع کر دے تو مقدموں کے انبار لگ جائیں گے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت پریمیئرانٹیلیجنس ایجنسی چیف کو اِن کیمرا سماعت میں بلا کر بریفنگ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری پریکٹس نہیں کہ ریاستی پالیسی یا فارن پالیسی کے معاملات میں مداخلت کریں، عدالت کی پالیسی معاملات کو دیکھنے کی پریکٹس نہیں، ہمارےلیے آسان ہوگا کہ اگر معاملےکو قانون و آئین کے تناظر میں پرکھا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب میں صورت حال اسلام آبادکی صورت حال کی ہی ایکسٹینشن ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بتائیں کل وزیراعلیٰ کی ووٹنگ ہوگی یانہیں؟
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوگا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کل اسمبلی اجلاس آئین کے مطابق ہوگا:سپریم کورٹ آرڈر
سپریم کورٹ کی جانب سے آرڈر میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کل اسمبلی اجلاس آئین کے مطابق ہوگا، کل اجلاس کے بعد معاملےکو دیکھ لیں گے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نےکہا کہ بطور اٹارنی جنرل یہ میرا آخری کیس ہوگا، نہیں چاہتا بطور اٹارنی جنرل آخری کیس ایساہوکہ تاریخ مجھےسزادے،میری درخواست یہ ہوگی ایک سائیڈ کو آج سنا گیا،کل دیگر وکلا کو سن لیں،مجھے پرسوں دلائل کا موقع دیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نےکہا کہ قائم مقام حکومت کاقیام عدالتی کارروائی سےمشروط ہے،کل کیس نمٹاناچاہتےہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی، کل فریقین کے وکلا بابراعوان، بیرسٹرعلی ظفر اور نعیم بخاری دلائل دیں گے۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے، عدالت ہوا میں فیصلہ نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی سولات کے جوابات دینا ہوں گے، ہم بھی جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بحث کرانے کی اجازت نہ دینا طریقہ کار کی خامی ہے جب کہ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بادی النظرمیں ڈپٹی اسپیکر نے اسپیکرکا وہ اختیاراستعمال کیا جو ڈپٹی اسپیکر کا اختیار نہیں تھا۔