عمران خان امریکہ مخالف جذبات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں: ماہرین

عمران خان امریکہ مخالف جذبات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں: ماہرین

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کے ان کی حکومت کو دھمکی دینے کے دعوے کو امریکی محکمہ خارجہ نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں ماہرین اور سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ غلط فہمی پر مبنی ایک معاملے کو وزیراعظم سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس سے مستقبل میں پاکستانی سفارت کاری کو نقصان ہوگا۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کو قوم سے براہ راست خطاب کے دورانمبینہ دھمکی آمیز خط کے حوالے سے ‘غلطی’ سے امریکہ کا نام لے لیا اور بعدازاں کہا کہ ایک ملک نے پیغام بھجوایا کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پاکستان کو معاف کر دیا جائے گا بصورتِ دیگر پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عمران خان نے کیا کہا؟

قوم سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’سات یا آٹھ مارچ کو ہمیں امریکہ سے۔۔۔ امریکہ نہیں، ایک غیر ملک سے پیغام آیا تھا۔ جو ہے تو صرف وزیرِ اعظم کے خلاف لیکن درحقیقت پوری قوم کے خلاف ہے۔ اس میں واضح طور پر عدم اعتماد کے بارے میں لکھا ہے حالاںکہ اس وقت تحریکِ عدم اعتماد پیش بھی نہیں ہوئی تھی۔ گویا انہیں پہلے ہی معلوم تھا کہ کوئی تحریکِ عدم اعتماد آ رہی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ خط پاکستان کی حکومت یا ریاست کے خلاف نہیں بلکہ صرف وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر عمران خان چلا جاتا ہے تو ہم پاکستان کو معاف کر دیں گے، بصورتِ دیگر اسے مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ جیہا ہیم کے سوال پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’جب ان الزامات پر بات پہنچ جائے تو جان لیں کہ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’ہم پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم پاکستان کے آئینی عمل اور قانون کی حکمرانی کا احترام اورحمایت کرتے ہیں، لیکن ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘‘

ایک روز پہلے امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی امریکی ایجنسی نے

اس قسم کا کوئی خط پاکستان کو نہیں لکھا ہے۔

’معاملہ ایک غلط فہمی پر مبنی ہے‘

سابق امریکی سفارت کار رابن رافیل امریکی محکمہ خارجہ میں پاکستان سے متعلق خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سارا معاملہ ایک غلط فہمی پر مبنی ہے اور پاکستانی وزیراعظم اور ملک کو امریکہ کی جانب سے کوئی دھمکی جاری نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں جس بات میں ابہام ہے وہ یہ ہے کہ ایک معمول کی سفارتی ملاقات کے دوران، امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستانی سفیر کو کہا کہ وہ ملاقات کے لیے آئیں تاکہ ان سے پاکستان کی جانب سے امریکہ کے خلاف بیان بازی کے بارے میں شکایت کی جا سکے۔ اور پاکستان کو کہا جاسکے کہ وہ یوکرین کی حمایت کرے اور روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرے۔ سو یہ بیان بازی کی نوعیت کو بدلنے کے لیے کہا گیا نہ کہ حکومت کو بدلنے کی بات ہوئی۔‘‘

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے خود کہا ہے کہ یہ دو سفارت کاروں کی ملاقات کے نوٹس ہیں جو پاکستانی سفیر کی جانب سے ان تک پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، “سفارت کار ایک دوسرے کو بہت سی باتیں کہتے ہیں۔ ان میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کے ملک کی حکومت سے ہمارا کام نہیں بن رہا اور بعد میں ہم جو نئی حکومت ہو گی اس کے ساتھ بات کریں گے۔”

انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی آن دی ریکارڈ یہ بیان دیا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کے ساتھ پاکستان کوئی مذاکرات نہیں کر پائے گا۔ بقول ان کے یہ کوئی دھمکی نہیں ہے، یہ ایک معمول کی سفارت کاری کی بات ہے جس کا عمران خان نے بتنگڑ بنا ڈالا۔

کیا وزیر اعظم کا یہ بیان سیاسی مفاد کے لیے ہے؟

سابق پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ اصل سبب یہ ہے کہ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریت کھو چکے ہیں۔ “جو ان کی سبکی ہوئی ہے اس پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات داؤ ں پر لگا رہے ہیں۔”

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ فار پیس میں جنوبی ایشیا کے لیے سینئیر ایڈوائزر کے طور پر کام کرنے والے ڈینئل مارکی نے بذریعہ ای میل وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے مطابق ایسے بیانات اگرچہ حقیقت سے تعلق نہیں رکھتے، لیکن ان سے امریکہ پاکستان تعلقات پر اثرات پڑیں گے۔ انہوں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ عمران خان کی جانب سے یہ الزام پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش کی توجہ موڑنے اور اپنی گرتی ہوئی حکومت کو بچانے کی کھلی کوشش ہے۔

بقول ان کے عمران خان کے اقدامات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اینٹی امریکہ جذبات سے کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں، جو پہلے ہی ان کے حامیوں میں خاصے مقبول ہیں، لیکن امریکہ مخالف جذبات ان کی حکومت کو بچا نہیں سکیں گے اور اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔

پاکستانی سفارتکاری پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

اس بیان کے ممکنہ نتائج پر بات کرتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ اس سے پاکستان کو کئی طرح کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے سفارت کاروں کا مستقبل میں کام مشکل ہو جائے گا۔ بقول سابق سفیر،” مختلف لوگ پاکستان کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے ڈریں گے کہ کیا پتہ کوئی ہماری گفتگو کے نوٹس اسلام آباد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر لے۔”

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے لیے سفارتی خدمات انجام دینے والے تمام اہلکار 1923 کے آفیشل سیکرٹس ایکٹ پر عمل کرتے ہیں۔ اس ایکٹ کے مطابق ایسی دستاویزات اور ملاقاتوں کے ریکارڈ بغیر کسی قانونی طریقہ کار کے عام نہیں کیے جاسکتے۔ انہوں نےکہا کہ، ” اگر پاکستانی وزیر اعظم خود ہی ’وکی لیکس‘ بن جائے، تو اس سے سفارتکاری کو نقصان تو پہنچتا ہے۔”

اس سلسلے میں ڈینئیل مارکی کا نکتہ نظر تھا کہ اگر دونوں ممالک میں سیاسی عزم ہو تو معمول کے سفارتی تعلقات دوبارہ بحال ہو جائیں گے۔ انہوں نے وکی لیکس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں اطراف کو معلوم ہے کہ موجودہ زمانے میں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ غلط طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یا لیک کیا جا سکتا ہے۔

کیا اس سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوں گے؟

پاک امریکہ تعلقات پر اس معاملے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سیاسی بحران میں رہا تو پھر اس بات کے اثرات امریکہ پاکستان کے تعلقات پر پڑتے رہیں گے مگر انہوں نے واضح کیا کہ ’’عمران خان کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد ان کے کسی بیان کا امریکہ پاکستان کے تعلقات پر اثر نہیں رہے گا۔‘‘

ڈینئل مارکی نے بھی حسین حقانی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ، “عوام میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے سے شاید وزیراعظم خان کو فوری فائدہ ہو اور اگر وہ اپنی کرسی بچانے میں کامیاب ہو بھی گئے تب بھی اس سے مستقبل میں بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات مزید تلخ ہونے کا خطرہ ہے۔”

حسین حقانی کی نظر میں پاکستان میں جو لوگ سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں، اور امریکہ مخالف جذبات رکھتے، یہ بیان ان کے لیے ایک غذا ہے۔