وزیرِ اعظم پاکستان کے خلا ف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد ملک میں ان دنوں فلور کراسنگ موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ تحریکِ انصاف کے منحرف اراکینِ اسمبلی سندھ ہاؤس میں مقیم ہیں تو وہیں تحریکِ انصاف نے ان اراکین کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان میں ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے کی روایت نئی نہیں ہے بلکہ ملک کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جہاں اراکینِ اسمبلی اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے ہیں۔
حکمراں جماعت نے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کے اراکینِ اسمبلی کو خریدنے کے لیے اپوزیشن جماعتیں ہر رُکن کو کروڑوں روپیے دے رہی ہیں۔ تاہم منحرف اراکین نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
حکمراں جماعت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رُجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں فلور کراسنگ کی تاریخ
سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین تشکیل دیا تو اس میں ارکانِ اسمبلی کی نااہلی اور برطرفی کو خاصا مشکل بنایا گیا تھا ۔
آئین میں ارکانِ اسمبلی کو پارٹی کے خلاف ووٹ دینے سے روکنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا اور اس بات کا نقصان مستقبل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو اٹھانا پڑا جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف یکم نومبر 1989 کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی۔
مبصرین کے مطابق ووٹنگ سے قبل ایک جنگ کی سی صورتِ حال تھی اور ارکانِ پارلیمان کو جس طرح سے خریدا گیا اس کی شاید ہی کوئی مثال ملے۔
تجزیہ کاروں کہتے ہیں کہ پاکستان میں ’ہارس ٹریڈنگ‘ اس وقت سے سیاست کی ایک عام فہم اصطلاح بن گئی جس کا مطلب سیاستدانوں کو وعدوں اور پیسوں کے ذریعے خریدنا تھا۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ پاکستان میں جمہوری عمل کے لیے ایک انتہائی افسوسناک مرحلہ تھا کیونکہ اس سے پہلے سیاستدانوں کا بیوپار اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہوا تھا۔ لیکن کروڑوں روپے لگنے کے بعد حکومت کامیاب ٹھہری اور 12 ووٹ کی اکثریت سے بے نظیر بھٹو اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہیں۔
اس وقت پنجاب میں برسراقتدار وزیرِاعلیٰ نوازشریف تھے جن پر یہ الزام لگا کہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اُنہوں نے اپنے ارکان اور ان کے ساتھ آزاد ارکان کو لاہور کے قریب واقع چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤسز میں رکھا۔اس وقت پیپلز پارٹی نے اپنے ارکان کو سوات میں رکھا تھا لیکن فلورکراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کے لیے چھانگا مانگا کی اصطلاح استعمال کی گئی جو آج بھی زبان زدِ عام ہے۔
فلور کراسنگ کا راستہ روکنے کے لیے 1997 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے اتفاق رائے سے 14 ویں آئینی ترمیم منظور کی۔ لیکن اس کے باوجود قانونی پیچیدگیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
سن 2002 میں پیپلزپارٹی کے اندر شگاف ڈال کر پیپلزپارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی جو بعدازاں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئی تاکہ حکومت سازی کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
سال 2018 میں انتخابات سے قبل اور انتخابات کے بعد آزاد ارکان کے حوالے سے بھی ایسی ہی باتیں سامنے آئیں جن میں آزاد ارکان کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروایا گیا اور اس عمل کو وکٹیں گرانا کہا گیا۔
آئین کیا کہتا ہے؟
اس بارے میں سینئر پارلیمانی صحافی رزاق کھٹی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1997 میں نوازشریف دور حکومت میں جو قانون بنا تھا وہ خاصا سخت تھا اور اس کے مطابق پارٹی سربراہ کو کسی بھی رکن کو فارغ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد اس صورتِ حال میں تبدیلی ہو چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت اب پارٹی سربراہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلٰی کے انتخاب، تحریکِ عدم اعتماد، بجٹ اور دیگر اہم آئینی ترامیم کے دوران ووٹ نہ دینے پر پارٹی رُکن کو نااہل قرار دینے کے لیے اسپیکر کو مراسلہ بھیج سکتے ہیں۔
رزاق کھٹی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ دینے سے قبل وزیرِ اعظم پارٹی رُکن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا، لہذٰا تحریکِ عدم اعتماد میں رُکن اسمبلی اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔
اُن کے بقول 18 ویں ترمیم کے مطابق پارٹی سے انحراف کی صورت میں پارٹی سربراہ رُکن اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کر سکتا ہے جس کا جواب دینے کے لیے وقت کا تعین نہیں ہے۔ تاہم 1997 میں ہونے والی ترمیم میں منحرف رُکن کو نوٹس کا جواب دینے کے لیے سات روز کا وقت دیا گیا تھا۔
اس کے بعد شوکاز نوٹس کے جواب میں پارٹی سربراہ اس جواب سے مطمئن نہ ہو تو پارٹی سربراہ تحری طور پر اسپیکر کو آگاہ کرے گاجس کے بعد دو دن کے اندر اسپیکر چیف الیکشن کمشنر کو منحرف رُکن کو ڈی سیٹ کرنے کا کہے گا۔ اگر چیف الیکشن کمشنر اس کی توثیق کردے تو رکنیت فوری طور پر ختم ہو جائے گی ۔ چیف الیکشن کمشنر کو اس بارے میں 30 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد منحرف رکن کو سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے جہاں عدالت اس کیس کا 90 روز میں فیصلہ کرے گی۔
عبدالرزاق کھٹی کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے حکومتی اراکین اسمبلی کو پابند کیا جائے گا کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کے لیے نہیں جائیں گے۔ اُن کے بقول اراکینِ اسمبلی کو روکنا غیر آئینی ہو گا کیوں کہ قانون کے مطابق جب تک کوئی شخص عدمِ اعتماد تحریک کی مخالفت یا حمایت نہ کرے اس وقت تک اس آئینی شق کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
‘اسپیکر کسی رُکن کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا’
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اسپیکر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے وہ کسی رکن کو ووٹ دینے سے روک سکے، اسپیکر کسی کا ووٹ خارج یا مسترد بھی نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک کوئی شخص پارٹی سربراہ کے کہنے پر عملی طور پر ووٹ نہیں ڈال دیتا اس وقت تک کسی کی نیت یا گمان پر اسے نااہل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے ووٹ ڈالنے سے روکا جاسکتا ہے۔
حکومت کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
حکومت نے منحرف ارکان اسمبلی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اور ان ارکان کا مستقبل طے کرنے کے لیے اعلان کیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے رائے طلب کی جائے گی کہ جب ایک پارٹی کے ممبران واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوں اور پیسوں کے بدلے وفاداریاں تبدیل کریں تو ایسی صورت میں ان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔
وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہم عدالت سے رہنمائی چاہتے ہیں کہ کیا ایسے ممبران جو اپنی وفاداریاں معاشی مفادات کے لیے تبدیل کریں ،ان کی نااہلیت زندگی بھر کی ہو گی یا انہیں دوبارہ انتخاب لڑنے کی اجازت ہو گی؟ اس بارے میں سپریم کورٹ میں درخواست کی جائے گی کہ ریفرنس کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ سنایا جائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی صورتِ حال روزبروز کشیدہ ہورہی ہے اور ایسے میں حکومت عدالت سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن ان موجودہ حالات میں اس کے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔