مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز صوبۂ پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ وہ یہ عہدہ سنبھالنے والی شریف خاندان کی چوتھی شخصیت ہیں۔
مریم نواز سے پہلے ان کے والد نواز شریف، چچا شہباز شریف اور ان کے چچا زاد حمزہ شہباز شریف بھی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔
مریم نواز ایسے وقت میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنی ہیں جب ان کے چچا شہباز شریف دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم بننے کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔ مریم کو خاندانی اور موروثی سیاست کے حوالے سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔
سیاسی اور سماجی حلقے یہ بات بھی کر رہے ہیں کہ آیا نئے نظام میں مریم نواز کس طرزِ حکمرانی کا اختیار کریں گی۔ وہ سابق وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی طرح فیصلوں کے لیے اپنی جماعت کے قائد اور والد پر انحصار کریں گی یا کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گی؟
ان سوالوں کے جوابات میں ماہرین کی آرا مختلف ہیں۔ لیکن سب اس بات پر متفق ہیں کہ مریم نواز کے لیے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چلانا آسان کام نہیں ہوگا۔
تجزیہ کار اور صحافی سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کو اس وقت سب سے بڑا جو سیاسی چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اسی طرح دوسرا بڑا سیاسی چیلنج یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے روٹھے ہوئے ووٹر کو واپس کیسے لایا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح تیسرا بڑا چیلنج گورننس کا ہے۔ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں گورننس کیسے کرتی ہیں یہ بھی ایک چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ چوتھا بڑا چیلنج ذاتی ہوگا جس میں انہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ دوسروں سے کتنی اور کیسے مختلف ہوں گی۔
سہیل وڑائچ کے بقول یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے والد اور چچا سے کتنی مختلف ہوں گی۔ وہ کون سا ماڈل پنجاب میں لاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گورننس کے حوالے سے ماضی میں تین سے چار ماڈل رہے ہیں۔ یہ نواز، شہباز، پرویز الہی اور بزدار ماڈلز تھے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے والد اور چچا کا ماڈل اپناتی ہیں یا بزدار جیسے ماڈل پر چلتی ہیں یا کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیتی۔
انہوں نے کہا کہ ان سب سوالوں کے جوابات وقت کے ساتھ ہی آئیں گے اور سب کو انہی کا انتظار ہے۔
شریف خاندان کے قریب سمجھے جانے والے صحافی اور اینکر عمر اسلم کہتے ہیں کہ مریم نواز کا سیاست میں عمل دخل تو 1999 سے ہی ہوگیا تھا جب ان کے والد کی حکومت کو ایک فوجی آمر نے معزول کیا تھا۔
ان کے بقول 2017 سے قبل مریم نواز عملی سیاست میں نہیں آئی تھیں اور اس وقت تک ان کی زیادہ تر توجہ مسلم لیگ (ن) ک سوشل میڈیا ونگ کو فعال بنانے اور نوجوانوں سے متعلق پروگراموں پر مرکوز رہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں نواز شریف کو پانامہ کیس میں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے اور اقامہ پر نااہل ہونے کے بعد سے مریم نواز عملی سیاست میں متحرک ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک طرف عدالتی مقدمات کا سامنا کیا تو دوسری طرف اپنے والد کے حلقے میں خواتین اور ووٹرز سے رابطے بڑھائے۔
عمر اسلم نے مزید کہا کہ اس کے اس کے بعد مریم نواز نے اپنی والدہ کلثوم نواز کی انتخابی مہم چلائی۔ وہ الیکشن ایک مشکل مرحلہ تھا کیوں کہ وہ بیک وقت مخالف سیاسی جماعتوں کی تنقید کو براہِ راست سنتی تھیں۔ تاہم ان کی والدہ نے یہ انتخاب جیت لیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مریم نواز کی والدہ لندن میں بیمار تھیں تو وہ اپنے والد کے ساتھ پاکستان آئیں اور گرفتار بھی ہوئیں۔
تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مسلم لیگ (ن) کی صوبے میں کمزور ہونے والی حیثیت کو بحال کرنا اور اپنی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت کو حاصل کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سیاسی چیلنج کے ساتھ ساتھ انتظامی چیلنج بھی ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب ان کو بہت سے ایسے سیاسی اقدامات کرنا پڑیں گے جن سے اس خلا کو پُر کیا جائے۔
واضح رہے کہ مریم نواز کو 2018 میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی لندن میں پراپرٹی چھپانے میں اعانت کرنے پر سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اسی مقدمے میں انہیں انتخابی سیاست سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
تاہم 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز کی سزا ختم کردی تھی جس کے بعد وہ دوبارہ انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی اہل ہوگئیں۔
اس کے بعد مریم نواز نے ان انتخابات میں پہلی مرتبہ حصہ لیا اور وہ کامیاب ہوئیں۔
‘طاقت ور بیورو کریسی سے کام لینا ایک چیلنج ہوگا’
تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں مریم نواز اگرچہ حکومت میں پہلے نہیں رہیں لیکن وہ سیاست میں رہی ہیں اور لوگوں کو جانتی ہیں۔ وہ سرکاری افسروں کو جانتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ہوگا کہ مریم نواز کو ایک نئی ٹیم بنانا پڑے گی تاکہ جنریشن گیپ کے مسئلے کو بھی ختم کیا جا سکے۔ نئی ٹیم میں پرانے اور نئے لوگ شامل ہوں گے۔
ان کے بقول مریم نواز کی ٹیم بنانے کی صلاحیت سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ معاملات کو کس طرح سے سنبھال سکیں گی۔
سہیل وڑائچ کی رائے میں مریم نواز کے لیے طاقت ور بیورو کریسی سے کام لینا نہ صرف مشکل ہو گا بلکہ یہ ایک چیلنج بھی ہوگا کہ وہ بیورو کریسی کے ساتھ خود کیسے چلتی ہیں اور کس طرح ان پر اپنا اعتماد پیدا کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے بندے کے لیے یہ سب کچھ ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا کیوں کہ وہ خود بھی وقت کے ساتھ ساتھ سیکھتا ہے۔
صحافی عمر اسلم سمجھتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مریم نواز کی رہنمائی ان کے والد نواز شریف کریں گے جو پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم پاکستان بھی رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں انہیں اپنے چچا کی صورت میں وفاق سے رہنمائی بھی ملتی رہے گی۔
عمر اسلم کے خیال میں بیوروکریسی سے کام لینے سے متعلق مریم نواز نے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے اور وہ اپنی کارکردگی سے یہ ثابت بھی کرکے دکھائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بہادر اور باہمت خاتون ہیں۔
‘مریم نواز نے وزیرِ اعلیٰ بننے کے لیے سخت محنت کی ہے’
البتہ تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کو وہ چیلنجز درپیش نہیں جو وفاقی حکومت کو ہیں۔ صوبائی حکومت کے محصولات وفاقی حکومت جمع کرتی ہے جس میں سے حصہ صوبائی حکومت کو ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اِس وقت پنجاب کی حکومت کے پاس کافی وسائل ہوں گے جن سے وہ اپنے معاملات چلا سکیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت اپنے وسائل خود بھی پیدا کرسکتی ہے۔
مریم نواز نے بھی قائدِ ایوان منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں اپنی ترجیحات پیش کرتے ہوئے خواتین اور ان سے جڑے مسائل کے حل کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز نے قائدِ ایوان بننے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں جن چیزوں کا تذکرہ کیا ہے اس کے لیے صوبے کے پاس مالی وسائل موجود ہیں۔
ان کے خیال میں اس وقت پنجاب کے پاس 1100 ارب روپے موجود ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ وہ ان پیسوں کو کس طرح خرچ کرتی ہیں اور اپنے منصوبوں کو کس طرح مکمل کرتی ہیں۔ ان کے بقول اس کا اندازہ مستقبل میں ہو جائے گا۔
صحافی عمر اسلم کے بقول مریم نواز نے وزیرِ اعلیٰ بننے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ انہیں یہ منصب پلیٹ میں رکھ کر نہیں پیش کیا گیا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ مریم نے قائدِ ایوان بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں نفرت کی سیاست کو ختم کرنے اور جمہوری طریقے سے آگے بڑھنے کی بات کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز اگر صوبے میں محنت کریں گی تو مرکز میں جا سکیں گی کیوں کہ مرکز میں جانے کا راستہ پنجاب سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ ان سے قبل نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی یہی راستہ اپنایا ہے۔