پاکستان کی دو اہم سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے آئندہ عام انتخابات مل کر لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین اسے سندھ کی سیاست میں بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔
منگل کو لاہور میں ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال پر مشتمل وفد نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) محمد شہباز شریف سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے کے مطابق “دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ پاکستان کے عوام کو موجودہ مسائل سے نکالنے اور پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کریں گی۔”
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ یہ اتحاد وزارتوں کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ہو گا۔
سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی روایتی سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے مسلم لیگ (ن) اور متحدہ کے درمیان ہونے والے اس اتحاد کو پیپلز پارٹی کے خلاف تصور کیا جا رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے انتخابی اتحاد پر اُنہیں کوئی اعتراض نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کو جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی اتحاد کرے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے “لیکن ایسا نہ ہو کہ ہم اتحاد کریں تو مسلم لیگ (ن) کو پریشانی لاحق ہو جائے۔”
فیصل کریم کنڈی کے بقول پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے اور مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم کے بعد سندھ میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ساتھ بھی اتحاد بنانے جا رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ‘لیول پلیئنگ فیلڈ’ مہیا کی جائے اس کے بعد عوام جسے منتخب کریں اسے حقِ حکمرانی ہونا چاہیے۔
اس سوال پر کہ کیا پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سے اتحاد کر سکتی ہے؟
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ابھی تک پی ٹی آئی سے اتحاد کے حوالے سے کوئی باضابطہ یا پسِ پردہ بات چیت نہیں ہوئی ہے تاہم وہ مستقبل میں اس کے امکانات کو مسترد نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی سے اتحاد ہوا تو وہ ان رہنماؤں سے ہو گا جو نو مئی کے واقعات میں ملوث نہیں اور جنہیں الیکشن کمیشن انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے گا۔
‘پیپلزپارٹی کی پی ٹی آئی سے قربتیں بڑھ سکتی ہیں’
مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والا اتحاد پیپلز پارٹی کے خلاف جائے گا جسے دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو پی ٹی آئی سے قربت بڑھا سکتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد کا یہ مطلب ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں وہ مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخاب لڑیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ متحدہ مختلف اوقات میں مختلف اتحادوں کا حصہ رہی، اتحادی بناتی رہی اور توڑتی رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی ماضی میں اس کی سیاسی رفاقت رہی ہے۔
اُن کے بقول پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور انتخابات کے بعد اتحادی حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) مرکزی جماعت ہو گی اس لیے وہ بعض جماعتوں سے انتخابات سے قبل اور بعض سے انتخابات کے بعد اتحاد کرنا چاہے گی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لہذٰا صوبے میں بننے والا اتحاد اس کے خلاف ہی بنے گا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد میں کوئی قباحت نہیں ہے اور سیاسی اختلافات کو تلخی میں نہیں بدلنا چاہیے۔
مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کے امکانات اگرچہ محدود دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف دونوں جماعتوں بلکہ ملکی سیاست کے لیے بھی بہتر ہو گا۔
ان کے بقول اس سے پی ٹی آئی کی تنہائی ختم ہو گی اور پیپلز پارٹی کو بھی پنجاب میں پاؤں جمانے میں مدد ملے گی۔
‘یہ اتحاد بھی ‘سہولت کاری’ کے تحت ہی بنا ہے’
صحافی و تجزیہ نگار نذیر لغاری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور متحدہ کا اتحاد سندھ میں اپنی سیاسی صورتِ حال کو بہتر کرنے کی ایک کوشش ہے جو زیادہ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت کم ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) سندھ میں پارٹی کو منظم کرنا چاہتی ہے۔
نذیر لغاری کہتے ہیں کہ یہ اتحاد بھی ‘سہولت کاری’ کے تحت ہی وجود میں آیا ہے اور اگر یہ برقرار رہی تو انتخابی نتائج بھی ان کے حق میں آ سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اندرونِ سندھ پیپلز پارٹی کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ البتہ شہری علاقوں میں یہ اتحاد پیپلز پارٹی کے لیے کچھ مشکل پیدا کر سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کے امکان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے بجائے چاہے گی کہ اسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو جو کہ سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کو فائدہ دے گا۔
ان کے بقول پی ٹی آئی اور اس کی دھڑے بندی مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کو تقسیم کرے گی جو دراصل پیپلز پارٹی کے فائدے میں جائے گا۔