اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو بری کر دیا۔
مریم نواز کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے عدالت میں کہا کہ میں نے پہلے بتایا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیاں کب بنیں، پھر بتایا کہ ان کمپنیوں نے یہ پراپرٹیز کب خریدیں، انہوں نے انکار کیا کہ یہ پراپرٹیز 1993 سے ان کے پاس ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کمپنیز نے اس عرصے میں ضرور پراپرٹیز خریدیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ 2006 میں قطری فیملی سے سیٹلمنٹ کے بعد ان کے پاس آئیں۔
جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے کہ اس سارے کیس میں ان تمام ملزمان کو تو کچھ کہنا ہی نہیں چاہیے تھا، یہ کیس تو آپ نے ثابت کرنا تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کا کیس شاید ٹھیک ہو مگر آپ اس کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، ہم صرف پبلک نالج یا کسی کی سنی سنائی بات پر فیصلہ نہیں سنا سکتے، مریم نواز پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں اس لیے ان پر اثاثوں کا کیس نہیں بنتا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد کیس کا مختصر فیصلہ سناتے مریم نواز کی 7 سال کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو 7 سال اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی، مریم نواز کو جرم میں معاونت کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔
ایون فیلڈ کیس میں ہی مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو 10 سال قید کی سز اسنائی گئی تھی۔