برطانوی کابینہ میں تبدیلیاں؛ سابق وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی واپسی اہم کیوں؟

برطانوی کابینہ میں تبدیلیاں؛ سابق وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی واپسی اہم کیوں؟

سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی بطور سیکریٹری خارجہ ایک بار پھر حکومت میں واپسی کو انتہائی غیر متوقع اور برطانوی سیاست میں ایک ڈرامائی موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈیوڈ کیمرون نے 2016 میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی ’بریگزیٹ‘ کے لیے استصواب رائے کرایا تھا اور وہ خود برطانیہ کو یورپی یونین میں برقرار رکھنے کی مہم چلا رہے تھے۔ لیکن ریفرنڈم میں اس کے خلاف رائے آنے پر ڈیوڈ کیمرون وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے تھے اور اس کے بعد سیاسی منظر نامے سے بھی غائب تھے۔

اس وقت ڈیوڈ کیمرون سیکریٹری خارجہ کے طور پر وزیرِ اعظم رشی سونک کی کابینہ میں اہم ترین عہدوں میں سے ایک پر کام کریں گے لیکن وہ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں۔

برطانیہ میں کسی غیر منتخب فرد کی کابینہ میں شمولیت اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تو نہیں ہے لیکن ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے۔

پیر کو اپنی تعیناتی سے متعلق صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کیمرون کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ ہے کہ کسی سابق وزیرِ اعظم کی اس طرح واپسی معمول کی بات نہیں البتہ وہ عوامی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم رشی سونک نے پیر کو اپنی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور ڈیوڈ کیمرون کو حکومت میں شامل کیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کی تاریخ کے ان چند گنے چنے وزرائے اعظم میں شامل ہو گئے ہیں جو وزارتِ عظمیٰ سے سبک دوشی کے بعد اس سے کم سیاسی مرتبے کے کسی عہدے پر کام کے لیے حکومت کا حصہ بنے۔

کابینہ میں تبدیلی کیوں؟

وزیرِ اعظم رشی سونک کی جانب سے وزیرِ داخلہ کے منصب پر کام کرنے والی سویلا بریور مین کی برطرفی اور دیگر وزرا کی تبدیلی کو مبصرین آئندہ انتخابات میں معتدل ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وزیرِ اعظم رشی سونک نے کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ایسے وقت میں کی ہیں جب سویلا بریورمین پر اپوزیشن اور کنزرویٹو پارٹی کے اندر سے تنقید میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی لیے رشی سونک نے اپنے اتحادیوں کو کابینہ میں شامل کیا اور کارکردگی کا مظاہر نہ کرنے والے وزرا کو تبدیل کر دیا۔

اس تبدیلی کا محرک گزشتہ ہفتے سویلا بریورمین کے شائع ہونے والے ایک ایسے مضمون سے اٹھنے والا تنازع بنا۔ سویلا بریورمین نے اپنے مذکورہ مضمون میں پولیس پر ’دہرے معیار‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس دائیں بازوں کے مظاہرین سے سختی برتتی ہے جب کہ فلسطینیوں کے حامی مظاہرین کے لیے نرم رویہ اختیار کرتی ہے۔

سویلا بریورمین کے اس مضمون پر اپوزیشن کی مرکزی جماعت لیبر پارٹی نے بھی تنقید کی تھی۔ تاہم مبصرین سویلا بریور مین کی برطرفی کے بجائے ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں واپسی کو حیرت انگیز قرار دے رہے ہیں اور بریگزیٹ سمیت ان کے ماضی کے سیاسی فیصلوں کی وجہ سے وزیرِ اعظم رشی سونک کے اس فیصلے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

مقبول لیڈر سے بریگزیٹ تک

آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ڈیوڈ کیمرون تعلقاتِ عامہ کے شعبے سے وابستہ رہے تھے۔ انہوں نے 2010 میں پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہونے سے قبل 13 برس تک قدامت پسند کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی۔ اس عرصے میں یہ جماعت مسلسل اپوزیشن میں رہی۔ وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد وہ چھ برس تک اس منصب پر فائز رہے۔

ڈیوڈ کیمرون جب پہلی بار وزیرِ اعظم بنے تو ان کی عمر 43 برس تھی۔ ان کا شمار برطانیہ کے کم عمر ترین وزرائے اعظم میں ہوتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون جب منتخب ہوئے تھے تو بعض مبصرین نے لیبر پارٹی کے کم عمر ترین اور کرشماتی شخصیت تصور ہونے والے ٹونی بلیئر کے ساتھ ان کا موازنہ کیا تھا۔

ٹونی بلیئر کی طرح ڈیوڈ کیمرون نے بھی اپنی پارٹی کا روایتی نظریاتی تشخص تبدیل کرکے اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔

تاہم ایک حلقہ ڈیوڈ کیمرون کی وزارتِ عظمی کے دور میں کیے گئے کڑے معاشی اقدامات اور بریگزیٹ کے لیے استصوابِ رائے کروانے کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کے بقول، برطانیہ تا حال ان اقدامات کے اثرات سے دو چار ہے۔

SEE ALSO:

جب ‘سی آئی اے’ نے چار دن میں ایران کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا

ڈیوڈ کیمرون کے دور میں برطانوی حکومت نے صحتِ عامہ، تعلیم اور مفادِ عامہ کے دیگر شعبوں کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کیں۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا 2008 کی عالمی کساد بازاری کے اثرات سے نکل نہیں پائی تھی۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کرانے کے بعد ڈیوڈ کیمرون کے سیاسی زوال کا آغاز ہوا۔ ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی نہیں تھے تاہم ریفرنڈم میں ان کے برخلاف رائے آنے کے بعد ان کی پارٹی میں سابق وزیرِ اعظم بورس جانسن سمیت ’یورو اسکیپٹک‘ کہلانے والے یورپی یونین کے ناقد مضبوط ہوئے۔

برطانیہ 2020 میں یورپی یونین سے ہنگامہ خیز انداز میں علیحدہ ہوا۔ بریگزیٹ کے بعد تجارت پر پیدا ہونے والے اختلافات نے شمالی آئرلینڈ میں بھی سیاسی اتار چڑھاؤ پیدا کیا۔

لابنگ اسکینڈل

حال ہی میں ڈیوڈ کیمرون کو ایک اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان سے متعلق یہ معلومات سامنے آئی تھیں کہ وہ ایک مالیاتی خدمات انجام دینے والی کمپنی کو ایمرجنسی کرونا وائرس قرضوں کے حصول کے لیے سرکاری حکام کے ساتھ لابنگ کر رہے تھے۔

یہ اسکینڈل 2018 میں قائم ہونے والی گرینسل کیپیٹل سے متعلق تھا۔ ڈیوڈ کیمرون اس کمپنی سے جز وقتی مشیر کے طور پر وابستہ تھے۔ لابنگ کے الزامات سامنے آنے کے بعد قدامت پسند پارٹی میں لابنگ کے لیے قواعد کو سخت کرنے کے مطالبات سامنے آئے تھے۔

خارجہ پالیسی ؛ کامیابیاں اور تنازعات

اپنے وزارتِ عظمیٰ میں ڈیوڈ کیمرون نے چین کے ساتھ قریبی تجارتی تعلقات قائم کیے۔ ان کے دور کو دونوں ممالک کے تعلقات کا ’سنہرا دور‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آج ڈیوڈ کیمرون کی اس پالیسی کو برطانیہ میں کئی حلقے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور برطانیہ پر بیجنگ کے بڑھتے ہوئے رسوخ کو بین الاقوامی سیکیورٹی کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔

گزشتہ برس رشی سونک نے یوکرین روس جنگ پر بیجنگ سے بڑھتے ہوئے اختلافات کے دوران کیمرون کی چین پر پالیسی کو ’سادہ لوحی‘ قرار دیتے ہوئے اس سے فاصلہ اختیار کر لیا تھا۔

اپنے ایک بیان میں کیمرون نے وزیرِ اعظم سونک کے کئی فیصلوں سے اختلاف کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ بننے کے بعد سونک کے فیصلوں کی مکمل حمایت کریں گے۔

سن 2013 میں کیمرون کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر اس وقت بڑے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان کی اپنی کنزرویٹو پارٹی نے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف برطانوی فوج کی مداخلت کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔

کیمرون اب کیوں؟

وزیرِ اعظم رشی سونک کی جانب سے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کیوں کہ عالمی سطح پر ایک جانا پہچانا نام ہیں اس لیے کابینہ میں ان کی شمولیت سے ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے گا۔

لیکن مبصرین کے مطابق سونک نے یہ فیصلہ کر کے ایک ‘سیاسی جوا’ کھیلا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ٹوبی ہیلم کا کہنا تھا کہ سونک اپنی حکومت کی صلاحیت سے بڑھ کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ سب معاملات ہموار انداز میں چل رہے ہیں۔ لیکن اس فیصلے سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خود اپنی پارٹی میں حکومت چلانے کے لیے کافی معقول افراد دست یاب نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کے نزدیک کیمرون ایک اہل اور اپیلنگ خارجہ سیکریٹری ہو سکتے ہیں لیکن کیمرون سے متعلق پایا جانے والا عام تاثر اور جن حالات میں ان کا انتخاب کیا گیا ہے وہ اسے ایک جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ ظاہر کرتے ہیں۔

برطانوی جریدے’ گارڈین‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ڈیوڈ کیمرون کو ایک ’متنازع سیکریٹری خارجہ‘ قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی ممالک کی مداخلت سے لیبیا میں معمر قذافی حکومت گرانے میں برطانیہ کے کردار کو ڈیوڈ کیمرون اپنی بڑی کام یابی قرار دیتے ہیں۔

تاہم 2016 میں برطانوی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی نے قرار دیا تھا کہ لیبیا میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے حکومت بدلنے کی کوشش میں شامل ہونے کے لیے ڈیوڈ کیمرون نے جامع منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع پر 2010 میں ڈیوڈ کیمرون کے ایک بیان نے میڈیا میں حمایت و مخالفت کی لہر پیدا کی تھی۔ اس بیان میں انہوں نے غزہ کی پٹی میں ناکہ بندی کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کے تجربے کو ’قیدیوں کے کیمپ‘ سے تعبیر کیا تھا۔ تاہم 2016 میں اسرائیلی اخبار ‘ہارٹز’ نے انہیں سب سے زیادہ ’پرو اسرائیل‘ برطانوی وزیرِ اعظم قرار دیا تھا۔

ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے ٹرانسپورٹ سیکریٹری مارک ہارپر نے اس اقدام کی پذیرائی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ جیسے چیلنجز کی وجہ سے ہمیں ایک تجربہ کار خارجہ سیکریٹری کی ضرورت تھی اسی لیے ڈیوڈ کیمرون کا اس ذمے داری کے لیے انتخاب ایک بہترین اقدام ہے۔

اس تحریر کے لیے زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گئی ہیں۔