امریکی صدارتی انتخاب 2024: امریکہ میں عوام اپنا صدر کیسے چنتے ہیں؟

امریکی صدارتی انتخاب 2024: امریکہ میں عوام اپنا صدر کیسے چنتے ہیں؟

امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ پانچ نومبر 2024 کو ہو گی لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس صدارتی انتخاب میں عوام کی جانب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ضروری نہیں کہ ملک کا نیا صدر بنے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عام ووٹر نہیں کرتے بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔

Section divider

الیکٹورل کالج کیا ہے جس کے لیے امریکیووٹ ڈالتے ہیں؟

امریکی صدارتی انتخاب میں یہ سب سے اہم اور پیچیدہ ادارہ الیکٹورل کالج ہے۔ بنیادی طور پر الیکٹورل کالج ایک ایسا ادارہ ہے جو صدر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کالج کے ارکان جنھیں الیکٹر بھی کہا جاتا ہے، عوام کے ووٹوں سے جیتتے ہیں۔

یعنی جب امریکی عوام صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو دراصل وہ ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں جو مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں اور ان کا کام ملک کے صدر اور نائب صدر کو چننا ہے۔

نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے روز ہونے والی ووٹنگ اصل میں ان الیکٹرز کے لیے ہوتی ہے جو حتمی طور پر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہر ریاست میں ووٹنگ کے وقت اصل میں ووٹر جس بیلٹ پیپر کے ذریعے اپنا ووٹ دیتے ہیں اس پر درج ہوتا ہے ‘الیکٹرز برائے (امیدوار کا نام)’۔

یہ الیکٹرز منتخب ہونے کے بعد دسمبر کے مہینے میں اپنی اپنی ریاست میں ایک جگہ اکھٹے ہو کر صدر کے چناؤ لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔

ماضی میں یہ الیکٹرز اپنی مرضے سے بھی ووٹ ڈال سکتے تھے لیکن اب قانونی طور پر یہ الیکٹرز صرف اسی امیدوار کے لیے ووٹ ڈال سکتے ہیں جس کے نام پر انھوں نے ووٹ لیے ہیں۔

Section divider

الیکٹورل کالج کیسے کام کرتا ہے؟

امریکہ کی ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے طے ہوتی ہے جبکہ الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔

ہر ریاست کی کانگریس میں جتنی سیٹیں ہوتی ہیں اور اس کے جتنے سینیٹر سینیٹ میں ہوتے ہیں اتنی ہی اس کے الیکٹورل کالج میں الیکٹرز ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کسی ریاست کی کانگریس میں دس سیٹیں ہیں اور اس کی دو سیٹیں سینیٹ میں ہیں تو اس ریاست سے الیکٹورل کالج میں جانے والے الیکٹرز کی کل تعداد بارہ ہوگی۔

امریکہ میں ریاست کیلیفورنیا کے سب سے زیادہ یعنی 55 الیکٹرز ہیں جبکہ کم آبادی والی ریاستوں جیسے کہ وایومنگ، الاسکا یا شمالی ڈکوٹا میں ان کی تعداد تین ہے جو کہ کسی بھی ریاست کے لیے کم سے کم مقرر کردہ تعداد ہے۔

امریکہ کا صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 میں سے 270 یا اس سے زیادہ الیکٹرز کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

line
Clinton election night event
،تصویر کا کیپشنامریکہ کی ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے طے ہوتی ہے جبکہ الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے
line

عموماً ریاستیں اپنے تمام الیکٹورل کالج ووٹ اسی امیدوار کو دیتی ہیں جسے ریاست میں عوام کے زیادہ ووٹ ملے ہوں۔

مثال کے طور پر اگر ریاست ٹیکساس میں رپبلکن امیدوار نے 50.1 فیصد ووٹ لیے ہیں تو ریاست کے تمام 38 الیکٹورل ووٹ اس امیدوار کے نام ہو جائیں گے۔

صرف مین اور نبراسکا دو ایسی ریاستیں ہیں جو اپنے الیکٹورل کالج ووٹ امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے تقسیم کرتی ہیں۔

اسی لیے صدارتی امیدوار ان ریاستوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں جنھیں ’سوئنگ سٹیٹس‘ یا ’ڈانواڈول ریاستیں‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں نتائج میں پلڑا کسی بھی امیدوار کا بھاری ہو سکتا ہے۔

صدارتی امیدوار جتنی زیادہ ریاستیں جیتتے ہیں اس کے الیکٹورل ووٹ انھیں وائٹ ہاؤس کے قریب تر لے جاتے ہیں۔

Section divider

کیا آپ عوامی ووٹ کی اکثریت حاصل کر کے بھی صدارت سے محروم رہ سکتے ہیں؟

جی ایسا بالکل ممکن ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ کوئی امیدوار قومی سطح پر ووٹرز میں سب سے زیادہ مقبول رہا ہو لیکن وہ صدر بننے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکے۔

درحقیقت امریکہ میں گذشتہ پانچ میں سے دو صدارتی انتخاب ایسے امیدواروں نے جیتے جنھیں ملنے والے عوامی ووٹوں کی تعداد ہارنے والے امیدوار سے کم تھی۔

2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن سے 30 لاکھ ووٹ کم حاصل کیے تھے لیکن وہ صدر بنے کیونکہ انھوں نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کی۔

George Bush in 2000
،تصویر کا کیپشنایل گور کو جارج بش سے پانچ لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے

سنہ 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ صدارتی انتخاب میں ناکام رہنے والے ان کے مدِمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور کو ان سے پانچ لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔

اس کے علاوہ صرف تین امریکی صدور ایسے ہیں جو پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بنے اور یہ سب 19ویں صدی میں ہوا جب جان کوئنسی ایڈمز، ردرفرڈ بی ہیز اور بنجمن ہیریسن صدر بنے۔

Section divider

اس نظام کا انتخاب کیوں کیا گیا؟

جب 1787 میں امریکی آئین تیار کیا جا رہا تھا تو صدر کا ایک قومی سطح پر مقبول ووٹ سے انتخاب ناممکن ہی تھا۔ وجہ ملک کا بڑا رقبہ اور مواصلات میں مشکلات تھیں۔

اسی دور میں اس بارے میں بھی زیادہ موافق رائے نہیں تھی کہ واشنگٹن ڈی سی میں قانون سازی کرنے والوں کو صدر کے انتخاب کا حق دے دیا جائے۔

اس صورتحال میں آئین بنانے والوں نے الیکٹورل کالج تشکیل دیا جس میں ہر ریاست الیکٹرز کا انتخاب کرتی ہے۔

چھوٹی ریاستوں کو یہ نظام پسند آیا کیونکہ اس سے صدر کے انتخاب میں ان کا کردار عام ووٹنگ کے مقابلے میں زیادہ موثر تھا۔

الیکٹورل کالج کا خیال ملک کی جنوبی ریاستوں میں بھی پسند کیا گیا جہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اس وقت غلاموں پر مشتمل تھا۔ (اگرچہ غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا لیکن اس وقت مردم شماری میں انھیں شمار ضرور کیا جاتا تھا اور ایک آزاد فرد کے مقابلے میں غلام کو 3/5 گنا جاتا تھا)۔

چونکہ امریکی صدر کے انتخاب کے لیے درکار الیکٹورل ووٹوں کی کسی ریاست میں تعداد کا انحصار اس کی آبادی پر ہوتا ہے اس لیے جنوبی ریاستوں کو اس نظام کے تحت صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے کا زیادہ موقع مل رہا تھا۔

Electoral map
،تصویر کا کیپشنصدارتی امیدوار جتنی زیادہ ریاستیں جیتتے ہیں اس کے الیکٹورل ووٹ انھیں وائٹ ہاؤس کے قریب تر لے جاتے ہیں
Section divider

کیا الیکٹرز کے لیے عام ووٹنگ میں فاتح امیدوار کو ہی ووٹ دینا ضروری ہے؟

کچھ ریاستوں میں الیکٹرز اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں چاہے عوام نے اسے جتوایا ہو یا نہیں لیکن عام طور پر الیکٹرز اسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جسے ان کی ریاست کے عوام نے زیادہ ووٹ دیے ہوں۔

اگر الیکٹرز اپنی ریاست کے عوام کے چنندہ امیدوار کو ووٹ نہ دیں تو انھیں ’فیتھ لیس‘ یا عقیدے سے عاری کہا جاتا ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں سات الیکٹورل کالج ووٹرز نے ایسا کیا لیکن ان کے اس اقدام کا نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

Section divider

اگر کسی امیدوار کو اکثریت نہ ملے تو کیا ہوتا ہے؟

ایسی صورتحال میں ایوانِ نمائندگان صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالتا ہے۔

ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا ہے جب 1824 میں الیکٹورل ووٹ چار امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوئے اور کسی کو اکثریت نہیں مل سکی۔

اب جبکہ امریکی سیاست میں صرف دو جماعتوں کا بول بالا ہے، ایسا دوبارہ ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔