’سوئز سیکرٹس‘: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ سمیت وہ طاقتور افراد جن پر ’ناجائز دولت‘ کو رازداری سے چھپانے کا الزام لگا

’سوئز سیکرٹس‘: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ سمیت وہ طاقتور افراد جن پر ’ناجائز دولت‘ کو رازداری سے چھپانے کا الزام لگا

بین الاقوامی نجی بینک ’کریڈٹ سوئز‘ کے صارفین کے اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات پر مشتمل ’دی سوئز سیکرٹس‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بینک نے مبینہ طور پر دنیا بھر سے ایسے افراد کی دولت کو رازداری سے چھپائے رکھا جو کرپشن، منی لانڈرنگ اور منشیات کی سمگلنگ جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے۔

یہ انکشافات جرمنی کے اخبار ’سوڈوئشے زیتنگ‘ کی جانب سے 100 ارب ڈالر مالیت کے اُن 18 ہزار بینک اکاوئنٹس کی تفصیلات کا حصہ ہیں جو سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ سوئز بینک کا حصہ تھے۔

ان اکاوئنٹس کی معلومات اور تفصیلات پر مبنی ’دی سوئز سیکرٹس‘ کی تحقیقات ’آرگنزائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ (او سی سی آر پی) کے تحت جاری کی گئی ہیں جن میں جرمنی کے اخبار کے ساتھ دنیا بھر سے تحقیقاتی صحافیوں اور تنظیموں نے حصہ لیا تھا۔

ان میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز، برطانوی اخبار گارڈین بھی شامل ہیں۔

پراجیکٹ کے مطابق یہ معلومات انھیں خفیہ طریقے سے دی گئیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سوئٹرز لینڈ کے اس بینک میں دنیا بھر سے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ، کرپشن اور منشیات سمگلنگ سے حاصل کیے گئے پیسے رکھے گئے جن کے پیچھے کئی نامور شخصیات کا نام آتا ہے۔

’دی گارڈین‘ اخبار میں شائع ہونے والی سوئز سیکرٹس رپورٹ کے مطابق اس بینک کے زیادہ تر کلائنٹس مصر، وینیزویلا، یوکرین اور تھائی لینڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔

کریڈٹ سوئز بینک

کریڈٹ سوئز کا موقف: رپورٹ غلط معلومات پر مبنی ہے

اس معاملے پر سوئٹزر لینڈ کے بینک کریڈٹ سوئز نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ او سی سی آر پی کی رپورٹ میں غلط معلومات ہیں جو سیاق و سباق سے ہٹ کر ہیں اور ادھوری تفصیلات پر مبنی ہیں۔

واضح رہے کہ او سی سی آر پی کی رپورٹ کے مطابق اس بینک میں کئی مجرموں نے بھی اکاوئنٹ کھولے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بینک نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

بینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انھوں نے ان تمام اکاوئنٹس کا جائزہ لیا ہے جن کے متعلق معلومات اس رپورٹ میں عام کی گئی ہیں۔

بینک کے مطابق ان اکاؤنٹس میں سے 90 فیصد بند ہو چکے ہیں اور 60 فیصد ایسے ہیں جو 2015 سے قبل ہی بند ہو چکے تھے۔

بینک کے مطابق سوئز سیکرٹس کا مقصد صرف کریڈت سوئز بینک ہی نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ کے مالی نظام کو نشانہ بنانا ہے جس میں گزشتہ چند برسوں میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں۔

خفیہ اداروں کے سربراہان سے جڑے مبینہ اکاؤنٹس

اس رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے اس بینک میں دنیا کی 15 خفیہ ایجسنیوں کے سربراہان یا ان کے رشتہ داروں کے اکاؤنٹس تھے جن میں سے پاکستان، مصر، عراق، یمن اور اردن کے انٹیلیجنس چیفس کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ افراد امریکہ کے اتحادی سمجھے جاتے تھے۔

ان میں اردن کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سعد خیر کا نام سرفہرست ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اہم اتحادی کے طور پر کام کر رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ان کی سرگرمیاں مبینہ طور مشکوک تھیں کیوںکہ ان پر تیل کی سمگلنگ کے علاوہ امریکہ کی مدد سے قیدیوں پر تشدد کے الزامات بھی موجود ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سنہ 2003 میں سعد خیر نے کریڈٹ سوئز میں ذاتی اکاوئنٹ کھلوایا جس کی مالیت سات سال میں تقریبا ساڑھے 21 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔

2005 میں اردن کے شاہ عبداللہ نے سعد خیر کو عہدے سے ہٹا دیا تھا اور 2009 میں ان کی ویانا میں موت واقع ہوئی۔

یہ اکاؤنٹ 2009 میں ان کی موت سے کچھ ہی عرصہ قبل بند کر دیا گیا تھا۔

دوسرا نام یمن کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ غالب القمیش کا ہے جو 1980 کی دہائی میں افغان جہاد کے لیے امریکی مدد سے رضاکار بھرتی کر رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق القمیش یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کے انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے اور انھیں سنہ 2000 میں یمن کی خفیہ ایجنسی کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القمیش نے 1999 میں کریڈٹ سوئز بینک میں نجی اکاؤنٹ کھولا تھا جس کی مالیت 2006 تک تین عشاریہ سات ملین امریکی ڈالر ہو چکی تھی۔

انھوں نے اپنے اکاؤنٹ سے جنوری 2011 میں اس وقت چار ملین امریکی ڈالر نکلوا لیے تھے جب یمن کے دارالحکومت عدن میں عرب سپرنگ کے آثار شروع ہو چکے تھے۔

2014 میں جب ان کو یمن کے نئے صدر نے عہدے سے ہٹا دیا تو وہ ترکی کے شہر استنبول منتقل ہو گئے جب کہ ان کے بیٹے اب بھی یمن میں کاربار کرتے ہیں۔

مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عمر سلیمان جو صدر حسنی مبارک کا دایاں بازو تصور کیے جاتے تھے، ان کا نام بھی اس رپورٹ میں شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق عمر سلیمان نے 2003 میں عین اس وقت کریڈٹ سوئز بینک میں اکاوئنٹ کھلوایا جب امریکہ عراق پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔

سنہ 2007 تک ان کے خاندان کے اکاؤنٹ میں مبینہ طور پر 63 ملین سوئس فرینکس موجود تھے۔ سنہ 2011 میں مصر کے صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹ جانے کے بعد سوئس حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حسنی مبارک اور ان کے قریبی ساتھیوں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔

صدر حسنی مبارک کے خلاف مقدمے کے دوران ایک جج نے عمر سلیمان کی جانب سے بتایا کہ مصر کے بزنس مین حسین سالم خفیہ ایجنسی کے لیے جعلی ناموں سے مختلف تیل اور گیس کمپنیاں چلاتے تھے۔

خفیہ اداروں کے دیگر ناموں میں وینیزویلا کے سابق کپتان کارلوس لوئی ایگویلیرا کا نام بھی شامل ہے جو سابق صدر ہوگو چاویز کے ذاتی محافظ تھے اور بعد میں خفیہ ایجنسی کے سربراہ بنے۔

عراق کے سابق صدر صدام حسین کے زیر انتظام خفیہ ایجنسی کے چیف فائنینشل افسر خلاف ال دلیمی، سابق مصری صدر جمال عبد الناصر کے داماد اور انٹیلیجنس مشیر اشرف مروان جنھوں نے 1973 کی جنگ میں اسرائیل کو خفیہ معلومات فراہم کی تھیں، جرمنی کے سابق سیکرٹ پولیس کے افسر جرگن زیلینسکی کا نام بھی شامل ہے۔

جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹوں کے نام پر اکاؤنٹس

جنرل اختر عبد الرحمان

دی سوئز سیکرٹس میں جہاں دنیا بھر سے نامور شخصیات کے نام شامل ہیں وہیں پاکستان سے اب تک ان دستاویزات میں صرف ایک ہی اہم نام دکھائی دیا ہے۔

یہ نام ہے پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبد الرحمان کا جو سابق صدر جنرل ضیا الحق کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔

17 اگست 1988 کو جنرل اختر عبد الرحمان، جو اس وقت چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی تھے، بھی اس طیارے میں سوار تھے جس میں جنرل ضیا الحق سمیت پاکستان میں امریکی سفیر اور کئی فوجی افسران ہلاک ہوئے تھے۔

جنرل اختر 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کے چیف رہے جب پاکستان افغانستان میں امریکہ اور دیگر ممالک کی مدد سے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کر رہا تھا۔

او سی سی آر پی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو بھیجی جانے والی رقم سوئٹزر لینڈ میں سی آئی اے کے اکاؤنٹس میں جمع کی جاتی تھیں۔

مبینہ طور پر یہی رقم بعد میں پاکستان کی آئی ایس آئی کو منتقل کر دی جاتی تھی جس کے چیف جنرل اختر عبد الرحمان افغان مجاہدین کے لیے اسلحے، ٹریننگ اور رسد کا مبینہ طور پر بندوبست کرتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ سوئز بینک میں یکم جولائی 1985 کو جنرل اختر عبد الرحمان کے تین بیٹوں، اکبر، غازی اور ہارون، کے نام پر مشترکہ اکاؤنٹ کھولا گیا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت جنرل اختر کے بیٹوں کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 2003 میں اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی مالیت تقریبا پانچ ملین سوئس فرینکس یا تین عشاریہ سات ملین امریکی ڈالر تھی۔

پہلے اکاؤنٹ کے چھ ہی ماہ بعد جنوری سنہ 1986 میں جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹے اکبر کے نام پر ایک دوسرا اکاؤنٹ کھولا گیا۔

رپورٹ کے مطابق نومبر 2010 میں اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی مالیت نو ملین سوئس فرینکس یا نو عشاریہ دو ملین امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔

او سی سی آّر پی کی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے انٹیلیجنس ذرائع کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ اس زمانے میں سوئٹزر لینڈ میں کسی بھی طرح کے خفیہ فنڈز کے لیے اکاؤنٹ کھلوانا بہت آسان تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی زمانے یعنی 1985 میں اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے افغان جہاد کے لیے مختص فنڈ کے حوالے سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ فنڈ کہاں جا رہا ہے۔

او سی سی آر پی رپورٹ کے مطابق جب جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹوں سے رابطہ کیا گیا توان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ’یہ معلومات درست نہیں اور قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔‘

واضح رہے کہ جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹے ہمایوں اختر خان اور ہارون اختر خان پاکستانی کی سیاسی اور کاروباری شخصیت ہیں۔

ہمایوں اختر خان چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور 2002 سے 2007 تک وہ وفاقی وزیر برائے کامرس بھی رہے۔ آج کل وہ تحریک انصاف سے منسلک ہیں۔ ان کے بھائی ہارون اختر خان موجودہ سینیٹ کے رکن ہیں اور پاکستان مسلم لیگ نواز سے وابستہ ہیں۔

مصر کے صدر حسنی مبارک کے بیٹوں کے مبینہ اکاؤنٹس

حسنی مبارک

گارڈین اخبار کے مطابق ان تحقیقات میں معلوم ہوا کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کے بیٹے بھی اس بینک کے صارف تھے۔

رپورٹ کے مطابق حسنی مبارک کے بیٹوں الا اور جمال نے 1993 میں مبینہ طور پر سب سے پہلا مشترکہ اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔

سنہ 2010 تک صرف الا کے ایک اکاؤنٹ میں 138 ملین برطانوی پاؤنڈز موجود تھے۔

سنہ 2015 میں حسنی مبارک اور ان کے بیٹوں کو مصر کی عدالت نے کرپشن پر تین سال قید کی سزا سُنائی تھی جس کے بعد دونوں بھائیوں نے مصر کی حکومت کو 17 عشاریہ چھ ملین پاوئنڈ بطور جرمانہ ادا کیے تھے جس میں اعتراف جرم نہیں کیا گیا تھا۔

دونوں بھائیوں کے وکلا نے گارڈین اخبار کو بتایا کہ انھوں نے کوئی کرپشن نہیں کی اور دس سال کی تحقیقات کے باوجود ان کے اثاثوں میں کسی قسم کی غیر قانونی چیز کا ثبوت نہیں ملا۔

سوئز سیکریٹس میں فلپائن کے سابق آمر فرڈیننڈ مارکوس کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے بطور صدر تقریبا دس ارب ڈالر کی رقم بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے بھجوائی تھی۔

سنہ 1986 میں فرڈیننڈ مارکوس کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ 1995 میں زیورخ کی عدالت نے کریڈٹ سوئز بینک کو حکم دیا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کے 500 ملین امریکی ڈالر فلپائن کو واپس کر دے۔

قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف

قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف

سوئز سیکرٹس میں قزاقستان کے موجودہ صدر قاسم جومارت توکایف کا نام بھی موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان کے خاندان نے مبینہ طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں 1998 میں بینک اکاؤنٹ کھلوایا تھا جو ان کی اہلیہ اور 14 سالہ بیٹے کے نام پر تھا۔ ان کے بیٹے تیمور اس وقت جنیوا میں ایک مہنگے سکول میں پڑھ رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ان کے اکاؤنٹ میں سنہ 2005 میں ایک ملین امریکی ڈالر تھے۔ یہ اکاؤنٹ 2012 میں بند کر دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قاسم جومارت توکایف کی جانب سے سوئس اکاؤنٹ بند کر دینے کے بعد ان کے خاندان نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایسی آف شور کمپنیاں کھول کی تھیں جن کے سوئس بینکوں میں اکاؤنٹ تھے اور ان کمپنیوں کے ذریعے مبینہ طور پر 2014 میں پانچ ملین پاؤنڈ مالیت کی ایک برطانوی کمپنی کنٹرول کی گئی۔

اس کے علاوہ ان کی اہلیہ اور بیٹے نے روس کے دارالحکومت ماسکو اور جینیوا میں بھی کم از کم سات عشاریہ سات ملین امریکی ڈالر مالیت کی جائیداد خریدی۔

نخچیون آٹونومس ریجن آذر بائیجان کا ایک ایسا علاقہ ہے جو آرمینیا اور ایران سے گھرا ہوا ہے اور ترکی سے بھی سرحد ملتی ہے۔ یہاں گذشتہ 26 سال سے وسیف طالیبوو حکومت چلا رہے ہیں جن کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پر آمرانہ طرز حکومت کا الزام ہے جس کے تحت انھوں نے قیدیوں پر تشدد کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی پر بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر وسیف طالیبوو کے دو بیٹوں کے سوئز کریڈٹ بینک میں اکاوئنٹس موجود ہیں جن میں شیل کمپنیوں کی جانب سے بڑی رقم ٹرانسفر کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر وسیف طالیبوو کے بیٹوں سیمور اور رضا نے بعد میں دبئی اور جارجیا میں 63 ملین امریکی ڈالر مالیت کی جائیداد خریدی۔

رپورٹ کے مطابق سیمور اور رضا دونوں ہی حکومتی عہدے رکھتے ہیں اور ان کے خاندان کی آزربائیجان کے صدر سے بھی رشتے داری ہے۔

اکاؤنٹس کی معلومات کس نے دیں؟

اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان اکاؤنٹس کی معلومات کو لیک کرنے والا کون ہے؟ کیا یہ ایک فرد ہے یا پھر کوئی خفیہ تنظیم؟ جو بھی ہے اب تک یہ نام خفیہ ہے۔

لیکن ایک بیان میں یہ معلومات افشاں کرنے والے نے کہا کہ سوئٹزر لینڈ کے بینکنگ قوانین غیر اخلاقی ہیں۔

اس ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک سال قبل ان اکاؤنٹس کی تفصیلات عام کرنے کا مقصد سوئٹزر لینڈ کے بینکنگ سسٹم کے راز افشا کرنا تھا جس کا کردار شرمناک ہے کیوںکہ اس سسٹم کے تحت رازداری کے نام پر ٹیکس سے چھوٹ پانے

والوں کی مدد کی جاتی ہے۔

Partner Content: BBC Urdu