پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں جمعرات کو دن کا آغاز روس کے یوکرین پر حملے کی خبر سے ہوا جس کے بعد نہ صرف عالمی کاروباری منڈیوں میں اُتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے بلکہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
روس نے یوکرین پر حملہ ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو میں موجود ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی بھی تنازع کے فوجی حل کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تنازع میں فریق بنے گا۔ تاہم بعض مبصرین کے مطابق اس جنگ کے سیاسی اثرات سے زیادہ پاکستان پر اس کے معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ روس اور یوکرین سے مختلف اشیا اور اجناس درآمد کرتے ہیں۔
معاشی ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر یوکرین جنگ طول پکڑتی ہے تو پہلے سے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والی پاکستانی قوم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا لامحالہ اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔
یہاں جائزہ لیتے ہیں کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور پاکستان کے ان دونوں ملکوں کے ساتھ کس طرح کے تجارتی تعلقات ہیں؟
پاکستان کی روس اور یوکرین سے تجارت
سال 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2020 اور 2021 کے دوران پاکستان اور روس کے درمیان تجارت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
اعداد و شمار کی معروف ویب سائٹ ‘ٹریڈنگ اکنامس’ کے مطابق پاکستان نے 2020 میں روس سے 60 کروڑ ڈالر کی اشیا درآمد کیں جن میں گندم سے بنی اشیا، ربر، اسٹیل، کھادیں، تانبا، چائے، کافی، منرلز اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
سن 2020 میں پاکستان نے روس کو 14 کروڑ ڈالر سے زائد کی مصنوعات برآمد کیں جن میں کپاس، کینو، خشک میوہ جات، چمڑے کی مصنوعات، گرم کپڑے اور دیگر ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔
‘ٹریڈنگ اکنامکس’کے مطابق پاکستان یوکرین سے گندم سے بنی اشیا، اسٹیل کی مصنوعات، ڈیری مصنوعات، شہد، مشینری، کیمیکلز اور لکڑی سے بنی مصنوعات درآمد کرتا ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان نے یوکرین سے 30 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کی درآمدات کیں جب کہ اس عرصے کے دوران پاکستان نے صرف پانچ کروڑ ڈالر سے زائد کی مصنوعات یوکرین کو برآمد کیں۔
پاکستان کپاس، کینو، خشک میوہ جات، کھیلوں کا سامان، کٹلری اور گارمنٹس سمیت دیگر اشیا یوکرین کو برآمد کرتا ہے۔
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ تجارت کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے درآمدی بل میں اضافہ ہو گا۔
معاشی اُمور کے ماہر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ دنیا بھر کی معیشتوں میں روس کا کردار بہت محدود ہے جو لگ بھگ تین فی صد بنتا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ روس، یوکرین تنازع کا زیادہ اثر یورپی ممالک پر پڑ سکتا ہے کیوں کہ روس یورپی ممالک کی 20 سے 25 فی صد تیل کی ضروریات جب کہ 30 سے 40 فی صد گیس کی ضروریات پوری کرتا ہے۔
اُن کے بقول روس ، یوکرین تنازع سے پاکستان پر کوئی براہ راست فرق نہیں پڑے گا، لیکن عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا لامحالہ اثر پاکستان کی معیشت پر پڑے گا۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ 2014 کے بعد پہلی مرتبہ تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے بڑھ گئی ہے، لہذٰا پاکستان کے عوام جو پہلے ہی مہنگے پیٹرول سے پریشان ہیں، اُن کی مشکلات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
معاشی اُمور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن بھی فرخ سلیم سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس تنازع کے باعث پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگ کی وجہ سے دنیا میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جس کا براہ راست اثر تیل کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔تیل کی قیمتیں بڑھنے کی صورت میں وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے یہ بہت مشکل فیصلہ ہو گا کہ وہ ایک بار پھر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا جس کے بعد پہلی
مرتبہ پیٹرول 150 روپے لیٹر سے بڑھ گیا تھا۔ اس وقت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 160 روپے ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے اور اس کے اثرات صرف دو ملکوں کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
گندم کی درآمد کے لیے روس اور یوکرین پر پاکستان کا انحصار
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ گزشتہ برس پاکستان نے 10 لاکھ ٹن سے زائد گندم یوکرین سے درآمد کی تھی، لہذٰا اگر اس برس گندم کی فصل نے مقامی ضروریات پوری نہ کیں تو پھر پاکستان کو گندم درآمد کرنے کے لیے کسی اور ملک پر انحصار کرنا ہو گا۔
اُن کے بقول اگر یوکرین میں جنگ جاری رہی تو پھر پاکستان کو سستی گندم کے لیے کسی اور ملک کی جانب دیکھنا ہو گا۔
خیال رہے کہ تیل اور گیس کے علاوہ روس اور یوکرین کا شمار دنیا بھر میں گندم برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں بھی ہوتا ہے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر چوہدری یوسف کہتے ہیں کہ اپریل کے آخر تک پتا چل جائے گا کہ پاکستان میں کتنی گندم پیدا ہوئی ہے۔
اُن کے بقول اُمید ہے کہ پاکستان میں اس مرتبہ گندم کی فصل مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔
چوہدری یوسف کے بقول یوکرین کی گندم دنیا میں سب سے سستی ہوتی ہے، لہذٰا پاکستان اس لیے وہاں سے گندم درآمد کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کی حکومت کو تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینا ہوں گی، تاکہ اس جنگ کے منفی اثرات سے ملک کو بچایا جا سکے۔