اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنا دی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطا ربانی نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی۔
عدالت نے کیس کے شریک ملزمان جان محمد اور افتخار کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی جبکہ تھراپی ورکس کے تمام ملزمان کو بری کردیا، سزا پانے والا مجرم افتخار چوکیدار اور مجرم جان محمد مالی ہے، عدالت نے خانساماں جمیل کیس سے بری کردیا۔
کیس کا تفصیلی فیصلہ
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے گذشتہ سال بے دردی سے قتل کی گئی مقتولہ نور مقدم کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے، فیصلے میں ظاہر جعفر کو مجرم قرار دیتے ہوئے اسے سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے۔
61 صفحات پر مشتمل نور مقدم قتل کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کے دوران ظاہر جعفر کے وکیل نے اسے ذہنی مفلوج قرار دلوا کر سزا سے بچانے کی کوشش کی۔ تاہم عدالتی حکم پر جیل ہسپتال میں اس کا میڈیکل ہوا تو وہ ذہنی طور پر تندرست قرار پائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن ظاہر جعفر، افتخار اور جان محمد کے خلاف کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہی لیکن دیگر ملزمان کے خلاف کیس ثابت نہ کر سکی، اس لئے انہیں بری کیا جاتا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ پراسیکیوشن نے ثابت کیا کہ ظاہر جعفر نے اپنے گھر کے کمرے میں تیز دھار چاقو سے نور مقدم کو قتل کیا۔ ظاہر جعفر نے زبردستی نور مقدم کو اغوا کیا، حبس بے جا میں رکھا اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
سیشن کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ سائنسی اور فرانزک شواہد نے ثابت کیا کہ نور مقدم کا قتل ظاہر جعفر نے کیا۔ تھراپی ورکس کے مالک کا ظاہر جعفر کے والدین کے ساتھ کوئی میسج یا آڈیو پیغام نہیں پیش کیا گیا۔ ٹھوس شواہد کے بغیر نہیں کہا جا سکتا کہ طاہر ظہور قتل کا علم رکھتے تھے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نور مقدم کی لاش ظاہر جعفر کے کمرے سے برآمد کی گئی تھی۔ ملزمان کے وکلا استغاثہ کے شواہد کو جھٹلانے میں ناکام رہے۔ تاہم یہ شواہد نہیں کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی بیٹے کے قتل کے ارادے سے واقف تھے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے ثابت کرنا تھا کہ والدین بیٹے کے ارادے سے واقف تھے۔ ظاہر جعفر کی والدین سے ہوئی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ یا ٹیکسٹ میسج موجود نہیں ہے۔ صرف رابطے دکھاتی سی ڈی آر سزا کے لئے ناکافی ہے۔