امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے یا کملا ہیرس: ہمیں کب تک معلوم ہو پائے گا کہ کون جیتا کون ہارا؟

امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے یا کملا ہیرس: ہمیں کب تک معلوم ہو پائے گا کہ کون جیتا کون ہارا؟

ووٹنگ کے اختتام کے بعد نتائج کب آئیں گے اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مقابلہ کتنا سخت ہے۔ اگر امیدواروں کے مابین مقابلہ بہت سخت ہوا، جیسا کہ فی الحال توقع کی جا رہی ہے، تو نتائج کے اعلان میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیں۔

2024 کے امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج کب جاری ہوں گے؟

امریکی نائب صدر اور ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے اور کئی ایسی ریاستیں نظر آ رہی ہیں جہاں کسی بھی امیدوار کو واضح برتری حاصل نہیں ہے اور وہاں کسی بھی امیدوار کے بہت کم ووٹوں سے جیتنے کی صورت میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا بھی کافی امکان موجود ہے۔

چند ریاستوں کی جانب سے 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد سے نتائج مرتب کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی کی وجہ سے بھی اس بات کا بھی امکان ہے کہ نتائج پہلے سے بھی کہیں زیادہ دیر سے موصول ہوں۔

دوسری جانب مشیگن جیسی ریاستوں نے ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار تیز کر دیا ہے جبکہ پچھلی بار کے مقابلے میں اس بار ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہو گی۔ پچھلے انتخاب میں کورونا وبا کی وجہ سے ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

ان تمام وجوہات کو مدِنظر رکھتے ہوئے وثوق کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہیں کہ انتخابی نتائج فورا آ جائیں گے یا ان میں تاخیر ہو گی۔

2020 میں نتائج کا اعلان کب ہوا تھا؟

سنہ 2020 کا صدارتی الیکشن تین نومبر (منگل) کو ہوا تھا۔ مگر امریکی ٹی وی چینلوں نے سنیچر سات نومبر تک جو بائیدن کی جیت کا اعلان نہیں کیا تھا۔

الیکشن کی رات ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی جب سونے گئے تو انھیں امید تھی کہ اُن کا امیدوار ہی جیتے گا لیکن درحقیقت اس وقت دونوں ہی امیدواروں کے جیتنے کے امکانات موجود تھے۔

جہاں زیادہ تر ریاستوں نے اپنے نتائج کا اعلان 24 گھںٹوں کے اندر ہی کر دیا تھا وہیں پینسلوینیا اور نواڈا جیسی کچھ ریاستیں بھی تھیں جن کے نتائج میں تاخیر ہوئی۔

پنسلوینیا، جہاں 19 الیکٹورل ووٹ تھے، کا جھکاؤ ڈیموکریٹ امیدوار کی جانب تھا اور سنیچر کو وہاں سے موصول ہونے والے نتائج کے بعد ہی میڈیا میں اعتماد پیدا ہوا کہ بائیڈن یہاں سے فاتح ہوں گے۔

بائیڈن کی فتح کا اعلان سب سے پہلے ’سی این این‘ نے کیا جس کے بعد اگلے 15 منٹوں میں باقی میڈیا نیٹ ورکس نے بھی یہ اعلان کر دیا۔

صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان کب تک ہو جاتا ہے؟

امریکی انتخاب

ماضی کے صدارتی انتخابات کی بات کی جائے تو امریکی ووٹرز کو اس بات کی عادت ہو گئی تھی کہ الیکشن کی رات یا زیادہ سے زیادہ اگلی صبح تک پتہ چل جائے گا کہ اگلا صدر کون ہو گا۔

مثال کے طور پر سنہ 2016 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ پہلی مرتبہ صدر بنے تھے تو انتخاب کے اگلے ہی صبح انھیں فاتح قرار دے دیا گیا تھا۔

اسی طرح جب سنہ 2012 میں براک اوباما دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو الیکشن کی رات ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جیت چکے ہیں۔

تاہم سنہ 2000 میں جارج بش اور جان کیری کے درمیان ہونے والے الیکشن کی کہانی قدرے مختلف تھی۔

دونوں کے درمیان فلوریڈا میں سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا اور اس مقابلے کا فیصلہ 12 دسمبر کو اُس وقت ہوا جب امریکی سپریم کورٹ نے ریاست میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے عمل روک دیا اور بالآخر بش کو فاتح برقرار رکھ کر اُن کے صدر بننے میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور کر دی گئی۔

وہ ریاستیں جہاں سخت مقابلہ متوقع ہے

امریکی اتخاب

امریکہ اتنے بڑے رقبے میں پھیلا ہوا ہے کہ پہلا پول منگل کو ایسٹرن سٹیندرد وقت (ای ایس ٹی) کے مطابق شام چھ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح چار بجے) بند ہو گا جب کہ آخری پول سات گھنٹے بعد بدھ کی رات ایک بجے (پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح 11 بجے) بند ہو گا۔

جن سات ریاستوں میں سخت مقابلہ متوقع ہے اُن میں ایریزونا، جورجیا، مشی گن، نواڈا، جنوبی کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں۔

جورجیا اور پانچ دیگر ریاستوں میں ووٹنگ مکمل طور پر جب کہ تین ریاستوں میں جزوی طور پر ای ایس ٹی وقت کے مطابق شام سات بجے (پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح پانچ بجے) بند ہو گی۔

جنوبی کیرولائنا سمیت چار ریاستوں میں پولنگ ای ایس ٹی وقت کے مطابق شام 7 بج کر 30 منٹ (پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح 5 بج کر 30 منٹ) پر بند ہو گی۔

اسی طرح پینسلوینیا اور 16 دیگر ریاستوں میں مکمل طور پر جبکہ مشی گن اور چار دیگر ریاستوں میں پولنگ کا جزوی اختتام ای ایس ٹی وقت کے مطابق شام آٹھ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح 6 بجے) ہو گا۔

مشی گن کے باقی رہ جانے والے علاقوں اور ایریزونا، وسکونسن اور 12 دیگر ریاستوں میں پولنگ کا اختتام رات نو بجے (پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح 7 بجے) ہو گا۔

نواڈا اور دو دیگر ریاستوں میں پولنگ رات 10 بجے بند ہو گی۔ پاکستانی وقت کے مطابق پولنگ ختم ہوتے ہوتے بدھ کی صبح آٹھ بج جائیں گے۔

ووٹوں کی گنتی کیسے ہوتی ہے؟

عموماً انتخاب کے روز ڈالے گئے ووٹوں کو پہلے گنا جاتا ہے۔ اس کے بعد بذریعہ ڈاک ڈالے گئے ووٹ، چیلنج کیے گئے ووٹ، اور پھر بیرون ملک اور فوجی بیلٹوں کی گنتی کی جاتی ہے۔

مقامی انتخابی عملہ انفرادی ووٹوں کی تصدیق، پروسیسنگ اور گنتی کا عمل مکمل کرتا ہے۔

بیلٹ کی تصدیق میں ڈالے گئے ووٹوں کا فعال ووٹرز کی تعداد سے موازنہ کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ہر ایک ووٹ کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کہیں کسی ووٹ پر داغ تو نہیں یا کہیں سے پھٹا ہوا تو نہیں ہے۔

ووٹوں کی گنتی کے دوران ہر ایک بیلٹ کو الیکٹرانک سکینرز میں ڈالا جاتا ہے جو ان کے نتائج کو جمع کرتے ہیں۔ کچھ حالات میں ان ووٹوں کو دوبارہ مینیوئل طریقے سے بھی گنا جاتا ہے۔

ہر ریاست اور علاقے کے سخت قوانین ہوتے ہیں کہ کون اس عمل میں حصہ لے سکتا ہے، ووٹوں کی کارروائی کی ترتیب کیا ہوگی اور ان میں سے کن چیزوں تک عوام اور مبصرین کی رسائی ہوگی۔

صدارتی الیکشن کے نتائج میں کن وجوہات کی بنیاد پر تاخیر ہو سکتی ہے؟

سخت مقابلے کی صورت میں ںہ صرف میڈیا کی جانب سے کامیاب امیدوار کی پیش گوئی میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ اس سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور قانونی پیچیدگیوں میں بھی اضافے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

مثال کے طور پر پینسلوینیا میں اگر جیتنے والے اور ہارنے والے امیدوار کے درمیان آدھے فیصد کا فرق ہو تو قانون کے مطابق خود بخود دوبارہ گنتی لازمی ہو جاتی ہے۔ 2020 میں یہ فرق 1.1 فیصد تھا۔

الیکشن سے قبل ہی ملک بھر میں 100 سے زیادہ کیسز دائر کیے جا چکے ہیں جن میں ریپبلیکنز کی جانب سے ووٹرز کی اہلیت اور ووٹر رول کے انتظام کو درپیش چیلنجز سے متعلق مقدمات شامل ہیں۔ ان مقدمات میں ہونے والے عدالتی فیصلے دن بہ دن اس ریس کی شکل تبدیل کر رہے ہیں۔

ووتوں کی گنتی

اگر صدارتی انتخاب کے نتائج چیلنج کر دیے گئے تو کیا ہو گا؟

تمام درست ووٹوں کو حتمی نتائج میں شامل کرنے اور دوبارہ گنتی جیسے عمل کے مکمل ہونے کے بعد انتخابی نتائج کی پہلے مقامی سطح اور پھر ریاستی سطح پر تصدیق کی جاتی ہے۔

اس کے بعد ریاستی ایگزیکٹیو، عموماً ریاست کے گورنر، ان افراد کی ایک فہرست کی تصدیق کرتا ہے جو الیکٹورل کالج میں اپنی ریاست کی نمائندگی کریں گے۔ اس کے بعد تمام ووٹرز 17 دسمبر کو اپنی اپنی ریاستوں میں مل کر ووٹ ڈالیں گے اور پھر اسے واشنگٹن بھیجا جائے گا۔

اس کے بعد 6 جنوری کو نئی امریکی کانگریس انتخابی ووٹوں کی گنتی کے لیے ایک مشترکہ اجلاس کرتی ہے جس کی صدارت موجودہ نائب صدر کرتے ہیں۔

سنہ 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد جب کانگریس بائیڈن کی جیت کی تصدیق کے لیے میٹنگ کر رہی تھی تو اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنے حامیوں کو یو ایس کیپیٹل پر مارچ کرنے کے لیے اُکسایا تھا۔

انھوں نے اپنے نائب صدر مائیک پینس پر زور ڈالا تھا کہ وہ ان نتائج کو مسترد کر دیں لیکن پینس نے اس سے انکار کر دیا۔

ہنگامہ آرائی کے خاتمے اور کانگریس کے ارکان کے دوبارہ اجلاس کے بعد بھی 147 ریپبلکنز نے ٹرمپ کی شکست کو ختم کرنے کے لیے ووٹ دیا لیکن وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے۔

تاہم اس کے بعد ہونے والے انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں قانون سازوں کے لیے ریاستوں کی جانب سے بھیجے گئے تصدیق شدہ نتائج پر اعتراض کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اب نائب صدر کے پاس انتخابی ووٹوں کو یکطرفہ طور پر مسترد کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔

تاہم انتخابی مبصرین کو توقع ہے کہ 2024 کے الیکشن کے دوران مقامی اور ریاستی سطح پر ووٹ کی تصدیق میں تاخیر کی کوششیں کی جا سکتی ہیں اور کئی گروہ انتخابی نتائج کو مشکوک بنانے کی کوششوں کی تیاری کر رہے ہیں۔

متعدد مواقعوں پر ٹرمپ، ان کے نائب صدر کے امیدوار جے ڈی وینس اور ریپبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے یہ کہنے سے انکار کیا ہے کہ اگر وہ ہار گئے تو وہ انتخابی نتائج کو قبول کریں گے۔

امریکی انتخاب

نئے صدر عہدے کا حلف کب اٹھائِں گے؟

نومنتخب صدر پیر 20 جنوری 2025 کو یو ایس کیپیٹل کمپلیکس کے میدان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ یہ امریکی تاریخ کا 60 واں صدارتی حلف ہو گا۔ اس تقریب کے دوران صدر افتتاحی خطاب بھی کریں گے۔