حزب اللہ کو پیجرز فراہم کرنے والی کمپنی نے پیجرز بنانے کی تردید کی ہے۔ لبنان کے پیجرز دھماکوں میں 12 افراد ہلاک اور 3000 سے زیادہ زخمی ہیں۔ پیجرز کے بعد بدھ کے روز کئی دوسرے برقی آلات پھٹنے سے ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے۔ پیجرز کی کمپنی تائیوان میں ہے لیکن اس نے پیجرز ہنگری کی ایک کمپنی سے بنوائے تھے۔ ہنگری میں واقع کمپنی کا دفتر ایک رہائشی علاقے میں ہے، لیکن اس کا وہاں کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ لبنانی سیکیورٹی ذرائع اسرائیلی خفیہ ایجنسی پر پروڈکشن کے مرحلے پر پیجرز میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ |
تائیوان کی پیجر بنانے والی ایک کمپنی نے بدھ کے روز ان پیجرز کو بنانے کی تردید کی جن کے پھٹنے سے لبنان میں حزب اللہ کے ہزاروں کارکنوں سمیت کئی عام شہری بھی زخمی ہوئے۔ دھماکے کے ساتھ پیجرز پھٹنے سے اب تک 12 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
اس پراسرار کارروائی نے مشرق وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ حزب اللہ نے پھٹنے والے پیجرز میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے جب کہ اسرائیل کی جانب سے اس الزام کی نہ ہی تو تردید کی گئی ہے اور نہ ہی اقرار کیا گیا ہے۔
پیجرز کا ہنگری سے کیا تعلق ہے؟
پیجرز کا برینڈ گولڈ اپالو ہے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ مذکورہ پیجرز ہنگری کے دارالحکومت بدڈاپیسٹ میں واقع بی اے سی نامی کمپنی کے لائسنس کے تحت بنائے گئے تھے۔
لبنان کے ایک سینئر سیکیورٹی ذرائع اور ایک اور ذریعے نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے، منگل کو پھٹنے والے پیجرز میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا۔ یہ پیجرز کئی ماہ پہلے حزب اللہ نے درآمد کیے تھے۔
رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیجرز دھماکوں سے زخمی ہونے والوں میں سے کچھ کی انگلیاں غائب ہیں، کچھ کے چہروں اور کولہوں پر شدید زخم ہیں۔
رائٹرز کے مطابق کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیجرز دھماکوں کا منصوبہ بظاہر کئی ماہ پہلے اس وقت بنایا گیا تھا جب غزہ میں جنگ شروع ہو چکی تھی اور حزب اللہ اس جنگ میں حماس کی حمایت میں اسرائیل پر تقریباً ہر روز راکٹ داغ رہا تھا۔
حزب اللہ نے کئی ماہ قبل پانچ ہزار پیجرز منگوائے تھے
لبنان کے سینئر سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ حزب اللہ نے گولڈ پولو کو 5000 پیجرز کا آرڈر دیا تھا جن کے بارے میں کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اس سال کے شروع میں میں انہیں مل گئے تھے۔
گولڈ پولو کے بانی ہسو چنگ کوانگ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کو فراہم کیے جانے والے پیجرز یورپ کی ایک اور کمپنی نے بنائے تھے، جس کا نام ’بی اے سی‘ ہے۔
ہسو نے بدھ کے روز تائیوان کے شہر ’تائیپے‘ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ پیجرز ہم نے نہیں بنائے تھے، وہ صرف ہمارا برانڈ تھا۔
پیجرز بنانے والی کمپنی کا حقیقی وجود نہیں ہے
ہسو نے پیجرز بنانے والی جس کمپنی کا نام بتایا، اس کا دفتر ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ایک رہائشی علاقے کی ایک عمارت میں ہے۔ شیشے کے دروازے پر چسپاں ایک چھوٹے سے کاغذ پر کمپنی کا نام ’بی اے سی‘ لکھا ہوا ہے۔
عمارت میں موجود ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بی اے سی‘ ایک کنسلٹنگ فرم کے طور پر رجسٹرڈ ہے، لیکن اس کا یہاں پر کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔
بی اے سی کی سربراہ کا نام کرسٹینا بارسونی ہے۔ ’لنکڈان‘ پر ان کے پروفائل میں لکھا ہے کہ وہ یونیسکو سمیت کئی کمپنیوں کے لیے ایڈوائزر کے طور پر کام کر چکی ہیں۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ کرسٹینا سونی نے اس بارے میں بھیجی گئی ای میل کا کوئی جواب نہیں دیا۔
بی اے سی نامی کمپنی جن امور کے لیے رجسٹرڈ ہے ان میں کمپیوٹر گیمز سے لے کر انفارمیشن انٹیلیجینس اور خام تیل نکالنے میں مشاورت تک شامل ہے۔
لبنان کے سینئر سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو اپنی لوکیشن کو اسرائیل سے چھپانے کے لیے پیجرز
استعمال کرتے ہیں۔
پیجرز میں دھماکہ خیز مواد اور آلات کب نصب ہوئے
ایک سینئر لبنانی ذریعے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے پیجرز میں باردوی مواد رکھنے اور اسے ریمورٹ کے ذریعے دھماکے سے اڑانے کے آلات اس وقت نصب کروائے جب ان کی پروڈکشن ہو رہی تھی۔
اسرائیلی حکام نے رائٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ تقریباً 3000 پیجرز اس وقت پھٹ گئے جب انہیں ایک کوڈڈ پیغام بھیجا گیا تھا۔ کوڈ ملتے ہی دھماکہ کرنے والا نظام فعال ہو گیا۔
ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے پیجر کے اندر ایک بورڈ نصب کیا جس میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا، جو ایک کوڈ پر کام کرتا تھا۔
ایک اور سیکیورٹی ذریعے نے رائٹرز بتایا کہ پھٹنے والے پیجرز میں تین گرام تک دھماکہ خیز مواد چھپایا گیا تھا۔یہ پیجرز کئی مہینوں سے حزب اللہ کے زیر استعمال تھے ، لیکن انہیں اس کا علم نہیں ہو سکا۔
حسن نصراللہ کو کیا خدشات تھے
اس سال 13 فروری کو حز ب اللہ کے ایک لیڈر حسن نصراللہ نے ٹیلی وژن پر اپنی تقریر میں اپنے حامیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے فون اسرائیلی جاسوسوں سے زیادہ خطرناک ہیں، انہیں توڑ دیں یا دفن کر دیں یا لوہے کے صندوق میں بند کر دیں۔
اس کے بجائے حزب اللہ نے اپنے گروپ کی مختلف شاخوں میں جنگجوؤں سے لے کر طبی عملے کے ارکان تک سب میں پیجرز تقسیم کر دیے۔
پیجرز دھماکوں سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے
لبنان کے وزیر صحت فراس ابیض نے بدھ کے روز بتایا کہ پیجر دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہو گئی ہے جن میں دو بچے بھی ہیں۔ جب کہ زخمیوں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔ زخمیوں میں حزب اللہ کے جنگجوؤں سمیت بیروت میں ایران کے ایک سفارت کار بھی شامل ہیں۔
بدھ کے روز دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ سامنے آیا، جس میں کئی برقی آلات جن میں سولر پینلز تک شامل ہیں، دھماکے سے پھٹ گئے جن میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایک شخص ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
پیجردھماکوں سے جنگ کی وسعت میں اضافے کا خطرہ
پیجرز کے دھماکوں نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کا دائرہ پھیلانے کے خدشات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کو کئی محاذوں پر خطرناک کشیدگی کے ذریعے علاقائی جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔
ایک تھینک ٹینک کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے تجزیہ کار مہند ھاج علی نے کہا ہے کہ پیجرز دھماکوں کے عام شہریوں اور خاندانوں پر ہونے والے وسیع تر اثرات کے باعث حزب اللہ پر سخت ردعمل کے لیے دباؤ پڑے گا۔
حزب اللہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کی حمایت جاری رکھے گا اور اسرائیل کو ’پیجر قتل عام‘پر جواب کا انتظار کرنا چاہیے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)