لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کیوں؟ کیا سزا مل سکتی ہے؟

لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کیوں؟ کیا سزا مل سکتی ہے؟

فیض حمید کے خلاف ہونے والی کارروائی انکوائری کے بعد ہو رہی ہے۔ فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کا معاملہ تو ہے ہی لیکن ان کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف معاملات میں ملوث ہونے کے الزامات بھی موجود ہیں۔ حامد میر جنرل فیض حمید پر اگر صرف مالی بے ضابطگیوں کا الزام ثابت ہو جائے تو انہیں 8 سے 10 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ریٹائرڈ سینئیر اہلکار۔ جنرل فیض حمید نے بھی جو کچھ کیا ہے اس پر ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی ہو گی اور دیگر سینئر افسران کو بھی محتاط رہنا چاہیے وگرنہ ان کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ریٹائرڈ سینئیر اہلکار۔

12 مئی صبح فجر کے وقت اچانک گلی میں شور سنائی دیا اور دیکھا کہ رینجرز اور فوجی گاڑیوں نے پوری گلی کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور وہ ایک گھر میں داخل ہو گئے، یہ گھر رمیش سنگھ اروڑا کا تھا جو رکن قومی اسمبلی بھی تھے۔

اس گھر میں داخل ہوکر سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے وقار نامی شخص کا پوچھا اور جب گھر والوں کی شناخت کی تو معلوم ہوا کہ وہ غلط گھر میں آ گئے ہیں، مطلوبہ مکان اس گھر کے بالکل سامنے تھا جس پر چھاپہ مارا گیا تھا۔

یہ گھر اسلام آباد کی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز کا تھا جنہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جنرل فیض حمید کے خلاف درخواست دی اور کہا کہ مئی 2017 میں جنرل فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے دفتر اور اُن کی رہائش گاہ پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ریڈ کی تھا۔ ان کے مطابق ریڈ کے دوران آئی ایس آئی اہلکار اُن کے گھر سے قیمتی اشیاء جن میں گولڈ، ڈائمنڈ اور پیسے شامل تھے اپنے ساتھ لے گئے۔

کنور معیز نے الزام عائد کیا تھا کہ ان سمیت ان کے رشتہ داروں کو کئی دن تک محبوس رکھنے کے دوران ان سے اربوں روپے مالیت کی سوسائٹی چھیننے کی کوشش کی گئی۔

بعد ازاں ان کو دہشت گردی کے کیس میں گرفتار کیا گیا اور ان کی گرفتاری عسکری 13 راول پنڈی کے علاقہ سے ظاہر کی گئی اور بعد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کی گرفتاری سے متعلق خبریں میڈیا پر آنے کے حوالے سے تاریخوں میں فرق کے بعد ان کی ضمانتیں منظور کر لی تھیں۔

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کارروائی

جنرل فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملہ پر تحقیقات ہو رہی تھیں لیکن اب پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی متعدد مواقع پر پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی، لہذا ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور ملٹری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

لیفٹننٹ جنرل فیض حمید پاکستان کی تاریخ کے وہ لیفٹننٹ جنرل تھے جو اپنے وقت کے وزیراعظم کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے لیکن ان کا نام مختلف مواقع پر سامنے آیا۔

فیض آباد کے مقام پر ٹی ایل پی کا دھرنا ہو، یا پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے فیض حمید کا نام لیکر دباؤ ڈالنے کا الزام، پانامہ کیس میں ججز کو کنٹرول کرنے کا الزام ہو یا پھر وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا الزام ، ہر معاملے میں فیض حمید کا نام سامنے آتا رہا۔

ٹاپ سٹی کیس میں سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں ان کی درخواست نمٹا دی گئی تھی اور عدالت نے حکم دیا تھا کہ وہ اس بارے میں موجود ریمڈی یعنی وزارت دفاع کو درخواست دیں تو وہ یہ معاملہ دیکھ سکتے ہیں جس میں اس وقت کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس معاملے پر درخواست کے بعد وزارت دفاع لازماً غور کرے گی۔

اس پر کنور معیز نے 12 مئی کو پیش آنے والے واقعہ کے ساتھ ساتھ اس کے بعد پیش آنے والے واقعات پر بھی بات کی۔

وزارت دفاع کو دی جانے والی درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جو کہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولے سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کر دیں گے۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ روپے نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل ’آپ ٹی وی نیٹ ورک‘ کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

اس درخواست پر رواں سال اپریل میں پاکستان فوج کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ فیض حمید کے خلاف پاکستان فوج کے ایک حاضر سروس میجر جنرل انکوائری کریں گے۔ اس انکوائری کے نتائج آنے کے بعد جنرل فیض حمید کو اب ملٹری تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔

9 مئی سمیت کئی اہم سیاسی معاملات میں فیض حمید ملوث ہیں۔ حامد میر

حامد میر نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کا معاملہ تو ہے ہی لیکن ان کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف معاملات میں ملوث ہونے کے الزامات بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید پر ایک عرصہ سے سیاست میں ملوث ہونے کا الزام ہے لیکن وہ صرف دوران سروس ہی نہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاست میں بہت زیادہ ملوث رہے اور پاکستان تحریک انصاف کے کئی قائدین کو وہ مختلف افراد کے ذریعے فون کر کے دباؤ ڈالتے رہے اور اہم فوجی شخصیات کے خلاف الزامات لگانے اور نام لینے کا بھی کہتے رہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ نو مئی کے روز جو واقعات پیش آئے میرے خیال میں فیض حمید اس کے مرکزی کردار تھے جن کا نام سامنے نہیں آ رہا تھا لیکن وہ ان تمام معاملات کے ذمہ دار تھے۔

حامد میر نے کہا کہ موجودہ حالات میں جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی تو شروع ہو گئی لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف بھی کارروائی ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔

حامد میر نے کہا کہ جنرل فیض حمید نے آرمی چیف بننے کے لیے بہت زیادہ لابنگ بھی کی لیکن شہباز شریف نے ان سے ملاقات نہیں کی اور ان کی کوششیں ناکام رہیں۔

جنرل فیض حمید کو کیا سزا مل سکتی ہے؟؟

جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی میں کیا کچھ ہو سکتا ہے اس حوالے سے پاکستان فوج کے ایک ریٹائرڈ سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیض حمید کے خلاف ہونے والی کارروائی انکوائری کے بعد ہو رہی ہے اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ انکوائری کمیشن کے پاس اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

ریٹائرڈ سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید پر اگر صرف مالی بے ضابطگیوں کا الزام ثابت ہوجائے تو انہیں 8 سے 10 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں، لہذا ان پر کون سے الزامات ہیں اس بارے میں کورٹ مارشل کی دیگر تفصیلات سامنے آنے پر ہی پتہ چل سکے گا۔

سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج میں خود احتسابی کا عمل ہے اور سینئر افسران کے خلاف انکوائری پہلی بار نہیں ہو رہی۔ ماضی قریب میں لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال کو کورٹ مارشل کے بعد سزا سنائی گئی تھی، جب کہ این ایل سی اسکینڈل میں ملوث ہونے پر سینئر افسران کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ لیفٹننٹ جنرل عبید کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کی گئی تھی۔

سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصہ میں حکومت کی طرف سے آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی ہے جس کے بعد ریٹائر ہونے والے افسران کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جنرل فیض حمید نے بھی جو کچھ کیا ہے اس پر ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی ہو گی اور دیگر سینئر افسران کو بھی محتاط رہنا چاہیے وگرنہ ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔