پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اعلان کیا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے۔
پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد جمعہ کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے حکومتی جماعت کے اراکینِ پارلیمنٹ اور اتحادی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد لانے کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت کی اتحادی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں اور حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے بعض اراکین بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تحریکِ عدم اعتماد پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کل تحریک لے آئے، پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی انہیں سرپرائز دیں گے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد لانے کا اعلان ایک اہم اقدام ہے تاہم اس کی کامیابی کے لیے حکومتی اتحادیوں اور تحریکِ انصاف کے ناراض اراکین کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ البتہ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے بعد حکومت کون بنائے گا؟
دوسری جانب حزب اختلاف کی حکومت مخالف تحریک کو دیکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف نے عوام کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم اور جلسوں کا اعلان کر رکھا ہے جن سے وزیر اعظم عمران خان
خطاب کریں گے
حکومت کی اہم اتحادی جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور مسلم لیگ (ق) کے قائدین تو حزب اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جب کہ بلوچستان کی حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور سندھ کے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنما بھی اعلانیہ تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری نے لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کے بعد حکومت کے اہم اتحادی چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی سے ملاقات کی ہے۔مولانا فضل الرحمٰن بھی ہفتے کو حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔
‘عدم اعتماد آتی ہے تو نظامِ حکومت رک جاتا ہے’
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کا وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اس کی کامیابی کے لیے حکومتی اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے ناراض اراکین اسمبلی کو کس حد تک اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد لانے کا اعلان یقینی طور پر اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب بھی تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو پورا نظام حکومت رک جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانا ایک مشکل کام ہے اور اسی وجہ سے وفاق کی سطح پر آج تک عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پارلیمانی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیابی کے قریب پہنچ سکی تاہم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود وہ بھی ناکام رہی۔
تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ ماضی میں باہمی عدم اعتماد کے باعث حزب اختلاف کے حکومت کے خلاف اقدامات کامیاب نہیں رہے تاہم عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اپوزیشن قائدین سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی بری حکمرانی کے بعد مہنگائی اور بے روزگاری نے حزب اختلاف کو موقع دیا ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک لائیں۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا موجودہ حالات میں بھی آسان نہیں ہو گا اور اس کے لیے حزب اختلاف کو خاصا زور لگانا ہو گا۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف کا عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان محض سیاسی اعلان نہیں بلکہ وہ اس میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کی کامیابی کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں وثوق سے اس لیے بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار تو ہے مگر ایسا اشارہ نہیں ملا کہ وہ حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے۔
افتخار احمد کہتے ہیں کہ حکمران جماعت کا پارلیمانی جمہوری روایات کو نہ ماننے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو قبول نہ کرنے کے رویے نے بھی حزب اختلاف کو متحد کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کا اتحادی جماعتوں کے ساتھ رویہ
بھی مناسب نہیں رہا جس کے باعث وہ بھی نالاں دیکھائی دیتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ماضی میں حزب اختلاف سینیٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود متعدد مواقع پر حکومت کو ناکام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے حکومت کے پاس بہت سے وسائل اور ادارے موجو ہیں جو کہ کام کریں گے جب کہ حزب اختلاف کے پاس بیانات اور جلسے کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد دیکھنا ہوگا کہ کیا تحریک انصاف میں کوئی ٹوٹ پھوٹ سامنے آتی اور کیا کوئی اتحادی حکومت سے راہیں جدا کرتا ہے تب ہی اس کی کامیابی ممکن ہوسکے گی۔
‘ہو سکتا ہے عمران خان اسمبلی تحلیل کر دیں’
افتخار احمد نے کہا کہ موجودہ حالات میں بہتری لانا عمران خان کے بس میں دکھائی نہیں دیتا اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسے ایک موقع جانتے ہوئے خود ہی اسمبلی تحلیل کر دیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر حزب اختلاف حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو بھی سوال باقی ہے کہ بعد میں حکومت کون بنائے گا اور کیا ڈیڑھ سال میں ملک کے حالات میں بہتری لائی جاسکے گی؟
افتخار احمد کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کا مطالبہ کرتی ہے اور اگر قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو صوبائی اسمبلیوں کو کیسے تحلیل کیا جائے گا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو انہوں نے سوال اٹھایا کہ عام انتخابات کی طرف کیسے جایا جا سکتا ہے