جرمن آٹو ساز کمپنی آؤڈی نے اعتراف کیا ہے کہ چین کی الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) کی صنعت نے یورپی مینوفیکچررز کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ایس اے آئی سی آؤڈی سیلز اینڈ مارکیٹنگ کے صدر اسٹیفن پوئٹزل نے کہا کہ 2021 میں چینی زیکر 001 ماڈل نے یورپی مارکیٹ کو حیران کردیا اور یہ واضح کیا ہے کہ مستقبل میں مقابلہ کرنے کے لیے چینی ٹیکنالوجی ناگزیر ہے۔
آؤڈی نے اپنے چینی پارٹنر ایس اے آئی سی کی مدد سے صرف 18 ماہ میں نیا ماڈل آؤڈی E5 اسپورٹ بیک تیار کرلیا ہے۔ جس میں بیٹری، الیکٹرک پاور ٹرین، انفوٹینمنٹ سافٹ ویئر اور جدید ڈرائیونگ اسسٹڈ سسٹمز چینی کمپنی نے فراہم کیے۔
کمپنی اس ماہ چین میں 33 ہزار ڈالر مالیت کی اس گاڑی کی ترسیل شروع کر رہی ہے۔
آؤڈی کے بعد دیگر عالمی حریف بھی تیزی سے چینی انٹیلیکچوئل پراپرٹی استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ٹویوٹا نے جی اے سی اور ووکس ویگن نے ایکس پینگ کے ساتھ مشترکہ ماڈلز تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
ذرائع کے مطابق رینالٹ اور فورڈ نہ صرف چین کے لیے بلکہ عالمی سطح پر چینی پلیٹ فارمز پر گاڑیاں تیار کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے معاہدے بظاہر چینی ای وی ساز کمپنیوں کے لیے چھوٹے مگر بڑھتے ہوئے ریونیو ذرائع ہیں جب کہ عالمی کار سازوں کو نئی گاڑیاں کم وقت اور کم لاگت میں تیار کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
یہ حکمتِ عملی 1990 کی دہائی کی ”انٹل ان سائیڈ“ مہم سے مشابہت رکھتی ہے، جہاں امریکی چِپ ساز انٹیل نے جدید اجزا استعمال کر کے کمپیوٹرز کو پریمیم مصنوعات میں بدل دیا تھا۔
اب چینی کمپنیوں کے تیار شدہ پلیٹ فارمز اور سافٹ ویئر دنیا بھر میں آٹو میکرز کو فوری حل فراہم کر رہے ہیں۔ لیپ موٹر اور اسٹیلانٹس کی شراکت داری، رینالٹ کی ڈیشیا اسپرنگ اور شنگھائی میں تیار ہونے والی نئی ٹوِنگو، اس حکمتِ عملی کی مثالیں ہیں۔
فورڈ بھی کسی چینی پارٹنر کی تلاش میں ہے جب کہ ووکس ویگن پہلے ہی ایکس پینگ کے ساتھ منصوبے کو وسعت دے رہا ہے۔
چینی پلیٹ فارمز پر انحصار وقت اور سرمایہ بچاتا ہے مگر خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ سابق ایسٹن مارٹن سی ای او اینڈی پالمر نے خبردار کیا ہے کہ ”اگر آپ مکمل طور پر دوسروں کی ٹیکنالوجی پر انحصار کریں گے تو طویل عرصے میں آپ صرف ریٹیلر بن کر رہ جائیں گے۔“
ماہرین کے مطابق برانڈز کو اپنی ٹیکنالوجی شامل کر کے انفرادیت برقرار رکھنی ہوگی، ورنہ عالمی سطح پر شناخت کھونے کا خطرہ ہے۔