اسلام آباد:
وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں 30 فیصد سے زائد خواتین اور بچے زنک، آئرن اور وٹامن کی کمی کا شکار ہیں، غذائی قلت اور بچوں میں نشوونما کی کمی کے حل کے لیے طویل المدتی اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین کی زیر صدارت اجلاس میں قومی گندم پالیسی اور 26-2025 کے لئے گندم مینجمنٹ سٹریٹجی اور آئندہ برسوں کی حکمت عملی پر غور کیا گیا.
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ گندم صرف ایک بنیادی فصل نہیں بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کی زندگی کی علامت ہے اور زور دیا کہ انصاف اور پائیداری اس نئی گندم پالیسی کی بنیاد ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں کو بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق قیمت دی جائے تاکہ پیداوار بڑھانے کی ترغیب ملے جبکہ درمیانے طبقے اور غربت کی لکیر سے اوپر کے صارفین کو مارکیٹ ریٹ پر گندم دستیاب ہو گی، کم آمدنی والے طبقات کے لئے حکومت سبسڈی اور دیگر معاون اقدامات کے ذریعے سہولت فراہم کرے گی اور اس حوالے سے مالی ذمہ داری وفاق اور صوبوں کے درمیان منصفانہ انداز میں تقسیم کی جائے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اسٹریٹجک ریزروز کو دانش مندی کے ساتھ جدید گرین سائلوز میں محفوظ کیا جائے گا تاکہ گندم کو ماحولیاتی خطرات اور معیار میں کمی سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت کا کردار قومی ذخائر کے نظم و نسق، غریب گھرانوں کو سبسڈی فراہم کرنے، گندم کے معیار کی یقین دہانی اور سپلائی چین کی بہتری پر مرکوز ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تغیرات سے ہم آہنگ اور زیادہ پیداوار دینے والی گندم کی اقسام پر تحقیق، کسانوں کی فلاح کے اقدامات اور جدید اسٹوریج سسٹم اس پالیسی کا اہم حصہ ہوں گے۔
رانا تنویر حسین نے گندم مینجمنٹ کے صحت عامہ کے پہلو کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ 30 فیصد سے زائد خواتین اور بچے زنک، آئرن اور وٹامن کی کمی کا شکار ہیں، اس لیے پاکستان کو غذائی قلت اور بچوں میں نشوونما کی کمی کے حل کے لیے طویل المدتی اقدامات کرنا ہوں گے، صرف سپلیمنٹس پر انحصار کے بجائے پالیسی کے تحت کثیر اناج پر مشتمل آٹے کے استعمال کو فروغ دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ گندم کی فورٹیفکیشن کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور غذائی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے بہتر ذخیرہ کاری کو ترجیح دی جائے گی، یہ اقدامات ماؤں اور بچوں کی صحت بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ قومی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ کریں گے۔
وفاقی وزیر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نئی گندم پالیسی تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول وفاقی اور صوبائی حکومتوں، کسان تنظیموں اور فوڈ انڈسٹری سے جامع مشاورت کے بعد حتمی شکل دی جائے گی تاکہ اجتماعی ملکیت اور مؤثر نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ ملک میں روٹی کا بحران پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا، حکومت کسانوں کے لیے منصفانہ منافع، صارفین کے لیے قیمتوں میں استحکام اور قدرتی آفات اور عالمی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے خلاف لچک پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چاہیے کہ مستقبل کی غذائی سلامتی کے لیے آگے بڑھنے والے ماڈلز اپنائے جو عالمی بہترین تجربات سے ہم آہنگ ہوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور دیگر خطرات کے مقابلے کی صلاحیت فراہم کریں۔