کراچی:
پاکستان کی معیشت کو گہرے ساختی مسائل، بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات اور وسیع سرمایہ کاری کے خلا نے طویل المدتی استحکام کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔
حکومت کی برآمدات پر مبنی ترقی اور پائیدار ترقی کے وعدوں کے باوجود ماہرین نے خبردار کیا کہ سرمایہ کاری میں رکاوٹیں، ماحولیاتی کمزوری کا سامنا اور پائیدار کاروباری طریقوں کی کمی ملک کے امکانات کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی ایسوسی ایشن (ACCA) اور پاکستان بزنس کونسل (PBC) کی مشترکہ رپورٹ پائیدار فنانس، کارپوریٹ گورننس اور پالیسی فریم ورک میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پائیداری عالمی ترجیح بن چکی ہے لیکن پاکستان ابھی تک اسے اپنے معاشی ماڈل میں مؤثر طریقے سے شامل کرنے میں پیچھے ہے۔پاکستان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو اپنی طرف راغب کرنا ہے۔
سرمایہ کاروں کا اعتماد صرف مالی خطرات پر نہیں بلکہ سیاسی استحکام اور ریگولیٹری پیش بینی پر بھی انحصار کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پائیدار سرمایہ کاری حاصل کرنا اور بھی مشکل ہے کیونکہ سرمایہ کار قلیل مدتی منافع کو طویل مدتی گرین منصوبوں کے غیر یقینی نتائج کے مقابلے میں تولتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی 2025 کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول کے لیے سرمایہ کاری کا سالانہ خلا 4 کھرب ڈالر ہے۔
پاکستان میں یہ خلا 2023 میں جی ڈی پی کے 16.1 فیصد کے برابر تھا، جو دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ میں شمار ہوتا ہے۔پالیسی کی غیر یقینی صورتحال دباؤ کو مزید بڑھا رہی ہے جیسے جیسے عالمی تجارت میں پائیداری سے جڑی شرائط اہمیت اختیار کر رہی ہیں، پاکستان کے برآمدکنندگان کو خطرہ ہے کہ اگر مقامی طریقے بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ ہوئے تو انھیں تجارتی اخراج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2050 تک جنوبی ایشیا کی 15 فیصد جی ڈی پی ماحولیاتی نقصانات کی زد میں آ سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے اس کا مطلب ہے گرین انرجی، پانی کے تحفظ اور معیشت میں ماحولیاتی لچک کو شامل کرنا۔ بصورت دیگر بار بار آنے والی آفات محدود وسائل کو مزید دیمک کی طرح چاٹتی رہیں گی۔
کارپوریٹ سطح پر پاکستان کی کمپنیاں پائیداری کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگی ہیں۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) نے جولائی 2025 سے فہرست شدہ کمپنیوں کے لیے عالمی IFRS S1 اور S2 پائیداری ڈسکلوزر معیارات کے تدریجی نفاذ کا اعلان کیا ہے، جو ایک اہم قدم ہے مگر اس کے لیے صلاحیت سازی لازمی ہوگی۔
چھوٹی اور درمیانی درجے کی کمپنیوں کو رپورٹنگ کے اخراجات، ڈیٹا کے موازنہ کی کمی اور “گرین واشنگ” کے خطرات کا سامنا ہے، جہاں کمپنیاں ماحولیاتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔
یہ عمل سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ پاکستان نے گرین فنانس کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں جن میں اسٹیٹ بینک کی گرین بینکنگ گائیڈ لائنز (2017) اور SECP کا گرین بانڈ فریم ورک (2021) شامل ہیں۔
رپورٹ زور دیتی ہے کہ گرین سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان نے 2030 تک 60 فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے اور درآمدی کوئلے پر پابندی لگانے کا ہدف رکھا ہے۔
ACCA-PBC رپورٹ کہتی ہے کہ سرمایہ کاروں، کمپنیوں اور ریگولیٹرز کے درمیان فوری تعاون ناگزیر ہے تاکہ معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔