کراچی:
پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل (PRAC) کے چیئرمین محمد یونس ڈاگھا نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی نئی نیشنل ٹیرف پالیسی 2025–2030 بیرونی شعبے کو غیر مستحکم کر سکتی ہے اور ملک میں صنعتوں کے قبل از وقت زوال کا باعث بن سکتی ہے۔
جولائی اور اگست 2025 کے دوران تجارتی خسارہ 29 فیصد بڑھ کر 6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جبکہ صرف اگست میں برآمدات میں 12.5 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
کونسل کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی آزاد تجارت کے ایسے نظریے پر مبنی ہے جو اب دنیا کے بدلتے معاشی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آج عالمی تجارت حکمتِ عملی پر چل رہی ہے، جہاں ترقی یافتہ ممالک اپنی صنعتوں کو بچانے اور ان کی برتری بڑھانے کے لیے ٹیرف، سبسڈیز اور حفاظتی اقدامات استعمال کرتے ہیں۔
نئی ٹیرف پالیسی کے مطابق پاکستان اوسط شرح ٹیرف کو 10.4 فیصد سے کم کرکے 2030 تک 6 فیصد سے نیچے لے آئے گا، جبکہ ٹیرف سلیب کو 5 سے کم کرکے 4 کر دیا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ شرح ٹیرف 20 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کر دی جائے گی۔
دوسری جانب بھارت اور بنگلا دیش جیسے ممالک اضافی ڈیوٹیز برقرار رکھے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان نے انہیں پانچ برسوں میں ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے ہماری مقامی مارکیٹ غیر محفوظ ہو سکتی ہے۔
محمد یونس ڈاگھا نے کہا کہ “آزاد تجارت اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب ملک میں مضبوط صنعتی انفراسٹرکچر اور عالمی سطح پر سازگار حالات ہوں۔ پاکستان کے پاس 25 کروڑ افراد کی بڑی مارکیٹ ہے جو سرمایہ کاروں اور تجارتی شراکت داروں کے لیے پرکشش ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں باہمی رعایتی معاہدے (ایف ٹی اے/پی ٹی اے) کرنے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم یکطرفہ طور پر ٹیرف ختم کر دیں تو اپنا مؤثر مؤقف کھو بیٹھیں گے اور دوسرے ممالک کے پاس اپنی مارکیٹ کی رسائی فراہم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔”
کونسل نے نشاندہی کی ہے کہ ماضی میں بھی بڑے پیمانے پر ٹیرف میں کمی کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ تجارتی خسارہ بڑھ گیا۔ 1996 سے 2005 کے دوران ٹیرف 46.6 فیصد سے کم ہو کر 14.3 فیصد تک آیا، لیکن برآمدات جمود کا شکار رہیں اور تجارتی خسارہ 3.1 ارب ڈالر سے بڑھ کر 12.1 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جبکہ 2021–22 میں یہ خسارہ 48.3 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
پچھلے 30 برسوں میں پاکستان کی برآمدات صرف 3.7 گنا بڑھ سکیں، جبکہ بھارت کی برآمدات 14.3 گنا اور بنگلہ دیش کی 12.6 گنا بڑھیں۔ اسی دوران پاکستان کی درآمدات 80 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، مگر صنعتی ترقی کی رفتار خطے کے دوسرے ممالک سے کافی پیچھے رہی۔
کونسل نے تجویز پیش کی ہے کہ 2025–2030 کی ٹیرف پالیسی پر نظرِ ثانی کی جائے۔
پی آر اے سی نے خبردار کیا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو نئی پالیسی حالیہ معاشی استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہے، صنعتوں کو مزید کمزور کر سکتی ہے اور طویل المدتی ترقی کو محدود کر دے گی۔