قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منگل کو حماس کے رہنماؤں پر ہونے والے اسرائیلی حملے نے امریکا اور قطر کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، جس پر ٹرمپ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گزشتہ چار ماہ قبل دوحہ میں قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں ممالک کے درمیان ایک وسیع دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے حکم پر اس حملے کا مقصد فلسطینی مسلح گروپ حماس کے سیاسی دفاتر کو نشانہ بنانا تھا۔ اس حملے میں قطر کے ایک سیکیورٹی ایجنٹ اور پانچ دیگر افراد جاں بحق ہوئے تھے، لیکن حماس کے رہنما حملے میں محفوظ رہے۔
ٹرمپ کا اسرائیلی حملے پر کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی آپریشن کے ہر پہلو سے بہت ناخوش ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تجزیہ کاروں اور امریکی حکام نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے غصے کے باوجود یہ حملے اسرائیل کے حوالے سے ان کے بنیادی نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کا امکان نہیں رکھتے۔
امریکی حکام کے مطابق اسرائیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکی مفادات کے خلاف کارروائی کرنے سے نہیں گھبراتا۔ نیتن یاہو حکومت نے منگل کو ہونے والے حملے سے قبل واشنگٹن کو باضابطہ طور پر خبردار نہیں کیا تھا۔
حالیہ حملے نے اسرائیل کے ستمبر 2024 میں حزب اللہ پر کیے جانے والے حملے کی یاد کو دہرایا ہے جب اسرائیلی فوج نے تنظیم کے ہزاروں ارکان کو بمباری میں زخمی کردیا تھا، جبکہ اُس دوران بھی اس وقت کے سابق امریکی صدر جو بائیڈن کو باقاعدہ اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
امریکی صدر نے نیتن یاہو سے کم ہی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، لیکن ٹرمپ حکومت ہمیشہ سے ہی حماس کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیل کی مہم کی بھرپور حمایت کرتی آئی ہے اور ایران کے جوہری پروگرام جیسے اہم معاملات پر اسرائیل کو بڑی حد تک قیادت دینے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس (Carnegie Endowment for International Peace) کے سینئر میمبر اور امریکی امن مذاکرات کار ایروِن ڈیوڈ ملر نے اس حوالے سے کہا کہ ”مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو کی حکمتِ عملی سے نالاں ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ“ ٹرمپ کی فطرت یہ ہے کہ وہ نیتن یاہو کے اس خیال سے متفق ہیں کہ حماس کو صرف ایک فوجی تنظیم کے طور پر ہی نہیں، بلکہ اس کا بنیادی طور پر کمزور کرنا ضروری ہے۔“
تبصرے کی درخواست پر وائٹ ہاؤس نے رائٹرز کو ٹرمپ کی ٹروتھ سوشل پر منگل کی رات کی جانے والی ایک پوسٹ کی جانب اشارہ کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بمباری نے نہ تو امریکی اور اسرائیلی مفادات کو آگے نہیں بڑھایا ہے۔
ٹرمپ کا پوسٹ میں کہنا تھا کہ حماس کو ختم کرنا ایک بڑا مقصد ہے، جو غزہ میں رہنے والے افراد کی تکالیف سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تاہم اسرائیلی سفارتخانے نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔