امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی فضائی حملے کا فیصلہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کیا نہ کہ ان کی انتظامیہ نے، قطر جیسے قریبی اتحادی پر یکطرفہ حملہ امریکا یا اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق منگل کو اسرائیل نے قطر میں حماس کے سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش میں فضائی کارروائی کی، جس سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ اس حملے کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے اور اسے ایک ایسا قدم قرار دیا گیا ہے جو حالات کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو ہدایت دی تھی کہ قطر کو حملے کے بارے میں خبردار کریں تاہم یہ اطلاع بہت دیر سے پہنچی۔
قطر نے وائٹ ہاؤس کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی قسم کا پیشگی انتباہ نہیں ملا اور امریکی اہلکار کا فون اس وقت آیا جب دوحہ میں دھماکے ہورہے تھے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ ”قطر ایک خود مختار ملک اور امریکا کا قریبی اتحادی ہے، جو امن قائم کرنے کی کوششوں میں ہمارے ساتھ جرات مندانہ کردار ادا کررہا ہے۔ ایسے ملک پر یکطرفہ بمباری امریکا یا اسرائیل کے مقاصد کو آگے نہیں بڑھاتی۔“
انہوں نے کہا کہ حماس کا خاتمہ جو غزہ کے عوام کی مشکلات سے فائدہ اٹھا رہا ہے ایک درست ہدف ہے مگر حملے کا طریقہ کار مناسب نہیں تھا۔
حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی حملے میں ان کے 5 ارکان ہلاک ہوئے، جن میں جلاوطن رہنما خلیل الحیہ کا بیٹا بھی شامل ہے۔
امریکا قطر کو اپنا اہم خلیجی اتحادی قرار دیتا ہے اور وہ اسرائیل و حماس کے درمیان جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے بعد کے حالات کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
اسرائیلی حملے کے بعد ٹرمپ نے نیتن یاہو اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے گفتگو کی اور قطری قیادت کو یقین دلایا کہ ”ایسی کارروائی دوبارہ ان کی سرزمین پر نہیں ہوگی“۔ انہوں نے حملے کے مقام پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس کارروائی سے ”خوش نہیں“ ہیں۔ ان کے بقول ”یہ اچھی صورت حال نہیں ہے، ہم یرغمالیوں کی واپسی چاہتے ہیں لیکن جو کچھ آج ہوا اس پر ہم مطمئن نہیں ہیں۔“
ٹرمپ کے بیان کے دوران قریب ہی موجود مظاہرین نے ”فری فری فلسطین“ اور ”نسل کشی کو ہتھیار دینا بند کرو“ کے نعرے لگائے۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی کارروائیوں میں غزہ کی بڑی آبادی بے گھر ہو چکی ہے، ہزاروں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور قحط کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
ماہرین قانون کے مطابق اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے جواب میں ہیں، جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے۔ اسرائیل غزہ جنگ کے دوران لبنان، شام، ایران اور یمن پر بھی حملے کر چکا ہے۔