مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں قطر ایک مرتبہ پھر عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، جہاں پیر سے اسلامی ممالک کا ایک غیر معمولی اجلاس ہو رہا ہے۔ سربراہ اجلاس سے قبل وزرائے خارجہ نے قرارداد کے مسودے کوحتمی شکل دی۔
اجلاس میں قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد کی صورت حال اور غزہ پر صیہونی جارحیت سے متعلق غور کیا جارہا ہے۔ توقع ہے کہ عرب اور مسلم دنیا کے رہنما ایک مشترکہ حکمتِ عملی مرتب کریں گے اور ممکنہ طور پر ایک متفقہ اعلامیہ بھی جاری ہوگا۔
9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحہ پر فضائی حملہ کیا، جس میں حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ کے بیٹے سمیت 6 فلسطینی شہید ہوئے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب قطر، حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے امکانات پر مذاکراتی کردار ادا کر رہا تھا، اور اسے خطے میں تناؤ بڑھانے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
قطر نے گزشتہ برسوں میں بارہا اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کی، جس میں جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور انسانی امداد کے نازک معاملات شامل ہیں۔ اگرچہ دوحہ اور تل ابیب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں، قطر نے اپنی مالی طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ سے اس تنازع میں منفرد حیثیت حاصل کی ہے۔
قطر کی سب سے بڑی طاقت اس کی مستحکم معیشت ہے۔ گلف نیوز کے مطابق قطر کا 2025 کا بجٹ 197 ارب قطری ریال آمدنی اور 210.2 ارب ریال اخراجات پر مشتمل ہے، جس میں 154 ارب ریال آمدنی صرف تیل و گیس سے متوقع ہے۔ اگرچہ 13.2 ارب ریال خسارہ ہے، مگر یہ معیشت کے مقابلے میں معمولی ہے۔
قطری اخبار کے مطابق قطر کے سرمایہ کاری فنڈ Qatar Investment Authority کے اثاثے 500 ارب امریکی ڈالر سے زائد ہیں، جو اسے خطے کے پیچیدہ تنازعات میں ثالثی کے قابل بناتے ہیں اور عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کی گنجائش دیتے ہیں۔
قطر نے عالمی سطح پر بھی اپنا ثالثی کردار منوایا، جیسا کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 2020 کے ”دوحہ معاہدہ“ میں دیکھا گیا، جس نے امن مذاکرات اور امریکی انخلا میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم، اسی ثالثی کی فضا میں 9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحہ پر حملہ کیا، جسے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو بیان میں امریکا کے 11 ستمبر کے بعد القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائیوں کے مترادف قرار دیا۔ نیتن یاہو نے قطر کو ”دہشت گردوں کی پناہ گاہ“ قرار دے کر خبردار کیا کہ اگر حماس کی قیادت کو ملک سے نہ نکالا گیا تو مزید کارروائیاں ہو سکتی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 2017 میں سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر پر دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور ایران سے قریبی تعلقات کے الزامات لگا کر تین سالہ بائیکاٹ کیا، جو 2021 میں ال اُلا معاہدے کے تحت ختم ہوا۔ اس بحران کے باوجود قطر نے اپنی خودمختار خارجہ پالیسی برقرار رکھی۔
اب وہی عرب ممالک دوحہ میں ایک میز پر بیٹھے ہیں تاکہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر لگائے گئے الزامات، جیسے حماس کو پناہ دینا اور مالی معاونت فراہم کرنا، زیر بحث لائیں۔ دوحہ پر حملے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اب بھی قطر کو ثالثی کے قابل سمجھے گا یا خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔