عجیب بات ہے! جن لاپتا افراد کو حکومت دہشتگرد کہتی رہی اب انکو پیسے دے رہی ہے، عدالت

عجیب بات ہے! جن لاپتا افراد کو حکومت دہشتگرد کہتی رہی اب انکو پیسے دے رہی ہے، عدالت


اسلام آباد:

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شہری کے کیس کی سماعت کے دوران جج نے ریمارکس دیے کہ عجیب بات ہے! جن لاپتا افراد کو حکومت دہشت گرد کہتی رہی اب ان کو پیسے دے رہی ہے جبکہ عدالت نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو لاپتا شہری عمر عبداللہ کے اہل خانہ کو امدادی رقم کا چیک جاری کر کے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا شہری عمرعبداللہ کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کی اور کہا کہ متاثرہ فیملی کو چیک جاری نہیں ہوتا توایڈیشنل سیکریٹری داخلہ 26 ستمبر کو پیش ہوں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے حکومت پاکستان کے پاس اتنے لاپتا افراد کو ادائیگی کے لیے بجٹ ہے؟ کیا عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مل کر ادائیگیاں کی جائیں گی؟ جن مسنگ پرسنز کو پہلے دہشت گرد کہتے رہے اب ان کو پیسے دے رہے ہیں، کتنی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو سزائیں دینی تھیں ان کو بچانے کے لیے ہم لوگوں کو پیسے دیں گے۔

محسن اختر کیانی نے کہا یہ تو ٹیسٹ کیس دیکھ رہے ہیں، ابھی تو نجانے اور کتنے کیسز ہوں گے، لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کے لیے اس ہائی کورٹ کا لارجر بنچ تھا وہ بھی ٹوٹ گیا، ہماری کورٹ کتنا ڈرتی ہے کہ دوبارہ لارجر بینچ ہی نہیں بنایا، مسنگ پرسنز مسنگ ہی رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں تو وزارتِ دفاع کے ساتھ Hands in gloves ہیں، وہ کتنا ڈرتے ہیں کہ کیس کورٹ میں آئے گا تو وزارت دفاع کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

لاپتا شہری کے والد نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ انہیں ابھی تک حکومت کی جانب سے امدادی رقم نہیں ادا کی گئی، لاپتہ افراد کمیشن کے سیکریٹری نے بتایا کہ جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو ادائیگی کے لیے کابینہ نے اسپیشل کمیٹی بنائی ہے۔

جسٹس کیانی محسن اختر کیانی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن کی کوئی حیثیت نہیں، اس عدالت میں امداری رقم کی ادائیگی کا بیان دیے دو ماہ گزر چکے ہیں۔

وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا ہم نے کیس فائنل کر کے وزارت داخلہ کو بھیج دیا تھا، ادائیگی انہوں نے کرنی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے آدھا پاکستان آج سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، ریاست جن کو دہشت گرد کہتی رہی اب ان کو ادائیگیاں کریں گے، مسنگ پرسنز پیش نہ کرنے پڑیں بس کروڑوں روپے دے دو جنہیں دہشت گرد کہتے تھے اُنہیں گرفتار کرتے ٹرائل کرواتے، سزائے موت کروا دیتے۔