واشنگٹن: امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کی چیف میڈیکل انفارمیشن آفیسر، ڈاکٹر مارگریٹ لوزوواٹسکی نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس سے حاصل کی جانے والی طبی معلومات اکثر پرانی، نامکمل یا غلط ہو سکتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں اے آئی چیٹ بوٹس بہت مقبول ہو گئے ہیں، اور بہت سے لوگ صحت سے متعلق مشورے حاصل کرنے کے لیے ان کا سہارا لیتے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ذاتی میڈیکل ہسٹری یا مریض کی موجودہ حالت سے واقف نہیں ہوتی، اس لیے یہ کسی بھی نئی بیماری، جاری علاج یا ایمرجنسی کی صورت میں قابلِ بھروسہ مشورہ نہیں دے سکتی۔
ڈاکٹر لوزوواٹسکی کے مطابق فی الحال مصنوعی ذہانت کا سب سے بہتر استعمال عمومی طبی معلومات حاصل کرنے، یا طبی اصطلاحات کو سمجھنے کے لیے ہے تاکہ مریض اپنے ڈاکٹر سے بہتر اور واضح سوالات کر سکیں۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ چیٹ بوٹس جن ڈیٹا پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، وہ اکثر پرانے رہنما اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، حال ہی میں سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) نے چھ ماہ اور اس سے بڑی عمر کے تمام افراد کے لیے نئی فلو ویکسین کی سفارش کی ہے، لیکن کئی چیٹ بوٹس اس اپ ڈیٹ سے لاعلم ہیں۔
ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بعض چیٹ بوٹس وزن کم کرنے کے لیے خوراک کے منصوبے (ڈائٹ پلان) تجویز کرتے ہیں، مگر ان میں غذائیت کا صحیح توازن نہیں ہوتا۔ ایک واقعے میں، 60 سالہ شخص نے چیٹ جی پی ٹی کی ہدایت پر نمک کے بجائے سوڈیم برومائیڈ استعمال کیا، جس کے نتیجے میں وہ برومائیڈ زہر کا شکار ہو گیا اور تین ہفتے کے لیے نفسیاتی اسپتال میں داخل رہنا پڑا۔
ماہرین نے واضح کیا ہے کہ اے آئی سے حاصل کردہ معلومات صرف عمومی رہنمائی کے لیے ہیں، ان پر عمل کرنے سے پہلے کسی مستند ڈاکٹر سے مشورہ ضرور لینا چاہیے۔ مصنوعی ذہانت، انسانی معالج کا متبادل نہیں ہو سکتی۔