سینیٹر ناصر محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس

سینیٹر ناصر محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس

– Advertisement –

اسلام آباد۔15ستمبر (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس پیر کو سینیٹر ناصر محمود کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں سینیٹرز محمد اسلم ابڑو، خالدہ عطیب، حسنہ بانو، بلال احمد خان، ہدایت اللہ خان اور وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) اور سٹیٹ آفس کے دیگر حکام نے شرکت کی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو سیکرٹری وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے سابق پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پاک پی ڈبلیو ڈی) کے متعدد ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے معاملے پر بریفنگ دی۔ حکام نے بتایا کہ ان ملازمین کی ڈیمانڈ کے مطابق ان کی ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ہے کیونکہ پوسٹیں ریگولر ملازمین کے لئے مختص ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ممکن ہو تو ان ملازمین کو دستیاب عہدوں کے مطابق ایڈجسٹ کیا جائے اور وزارت کو ہدایت کی کہ کمیٹی کو تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو قسطنطنیہ لاج، کشمیر پوائنٹ، مری میں 38 کنال اراضی سے متعلق پاک پی ڈبلیو ڈی (وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس) کے نام منتقلی کے آرڈر کی تصدیق کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہائی کورٹ نے کیس ان کے پاس بھیج دیا ہے اور فیصلہ کے ساتھ اس کے منٹس بھی جمع کرادیئے گئے ہیں، یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ رپورٹس غائب تھیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک نجی کمپنی نے مذکورہ اراضی کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے جبکہ پاک پی ڈبلیو ڈی کا موقف ہے کہ یہ جائیداد اس کی ہے۔حکام نے مزید بتایا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی نے ادائیگی کے ریکارڈ سمیت تمام مطلوبہ دستاویزات جمع کرادی ہیں۔اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اب اس معاملے کو چیف سیٹلمنٹ کمشنر حل کر سکتے ہیں ۔چیئرمین کمیٹی نے سفارش کی کہ سٹیک ہولڈرز پہلے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک میٹنگ کریں اور اس کے بعد کمیٹی کو دستاویزات کے ساتھ ایک جامع رپورٹ پیش کریں۔

– Advertisement –

مزید برآں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو اسکائی گارڈنز ہاؤسنگ سکیم کی تازہ ترین صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔بریفنگ میں قانونی چارہ جوئی اور عدالتی فیصلوں، شاملات/جنگل کی زمینوں، اصل پی سی۔1 اور اس کے بعد کی نظرثانی، زمین کے حصول کے عمل اور ٹینڈرنگ کے طریقہ کار کی تفصیلات شامل تھیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2018 میں سپریم کورٹ نے سکیم کے اندر تعمیرات پر پابندی عائد کر دی تھی۔نتیجتاً پلاٹ خریدنے کے باوجود الاٹی اپنے گھر حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ خدشات کا اظہار کیا گیا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو الاٹیوں کی محنت سے کمائی گئی رقم ضائع ہو جائے گی جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔چیئرمین کمیٹی نے تقریباً 2500 متاثرہ الاٹیوں کی حالت زار پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بہت سے افراد نے اپنی زندگی کی بچت حتیٰ کہ ذاتی سامان اور سونا بھی فروخت کرکے گھروں کی خریداری میں سرمایہ کاری کی ہے۔

انہوں نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے ) کو ہدایت کی کہ اگر حتمی فیصلہ ان کے خلاف جاتا ہے تو وہ الاٹیوں کو کس طرح معاوضہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔تفصیلی بحث کے بعد کمیٹی نے سفارش کی کہ ایجنڈا دو ماہ کے لئے موخر کر دیا جائے تاکہ حکومت کو معاملہ حل کرنے کی اجازت دی جا سکے۔ مزید فیصلہ کیا گیا کہ اگر مقررہ مدت میں مسئلہ حل نہ ہوا تو کمیٹی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہوگی۔مزید برآں ہاؤسنگ اینڈ ورکس کمیٹی کو لائف اسٹائل ریذیڈنسی پروجیکٹ کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) نے 3 مارچ 2025 کو پراجیکٹ کا قبضہ حاصل کیا۔مزید بتایا گیا کہ JV پارٹنر M/s Progressive کے بجائے M/s Granite نے سول اینڈ سیشن کورٹس میں درخواست دائر کی۔ اس کے بعد ایف جی ای ایچ اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس دائر کیا، جہاں 16 اپریل 2025 کو فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔اسلام آ باد ہائی کورٹ نے 21 مئی 2025 کو FGEHA کے حق میں اپنے فیصلے کا اعلان کیا، جس کے بعد 22 مئی 2025 کو برطرفی کی گئی۔

کمیٹی نے ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی سے بہارہ کہو میں گرین انکلیو-I منصوبے کی صورتحال کے بارے میں تفصیلی بریفنگ حاصل کی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ اپریل 2009 میں 3,153 کنال اراضی کے لیے جوائنٹ وینچر (جے وی) کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے جون 2009 میں اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور 27 فروری 2013 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ اس کے بعد 2015 میں گرین انکلیو-I کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔تاہم، ترقیاتی کام شروع نہیں ہو سکے کیونکہ ٹھیکیدار نے طے شدہ نرخوں کے خلاف احتجاج کیا اور اسی سال اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ منصوبے کو بار بار تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر ترقیاتی سرگرمیاں متعدد بار رک جاتی ہیں۔ تازہ ترین پیش رفت میں، اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ 2024 میں، ٹھیکیدار نے نرخوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔معاملہ بورڈ کے سامنے رکھا گیا جس نے مناسب غور و خوض کے بعد درخواست مسترد کر دی۔

غیر معمولی تاخیر پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اگر فوری پیش رفت کو یقینی نہ بنایا گیا تو وہ وزیر اعظم سے درخواست کریں گے کہ ایف جی ای ایچ اے کی جانب سے اس مسئلہ کے حل میں ناکامی پر اس کے خلاف کمیٹی تشکیل دی جائے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو ڈائریکٹر جنرل اسٹیٹ آفس نے سرکاری رہائش کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹیٹ آفس اس وقت 28,800 ہاؤسنگ یونٹس کا انتظام کر رہا ہے جبکہ 27,000 اضافی رہائش کی درخواستیں محدود صلاحیت کی وجہ سے زیر التوا ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ قلت کے باوجود کافی تعداد میں رہائشی یونٹس خالی پڑے ہیں۔اس صورتحال کاسنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے اسٹیٹ آفس کو ہدایت کی کہ وہ بتائیں کہ زیر التواء درخواستوں کے بیک لاگ کو دور کرنے کے لیے خالی جگہوں کو کس طرح مؤثر طریقہ سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

– Advertisement –