سلمان اور حارث بھی اپنے ہیں

سلمان اور حارث بھی اپنے ہیں


کراچی:

انٹرویو لینے والے نے سوال کیا ’’ کیا آپ کو لگتا ہے بابر اعظم کو اپنے ٹی20 بیٹنگ اسٹائل میں تبدیلی لانی چاہیے‘‘

محمد حارث کا جواب تھا ’’یس‘‘

اگلا سوال سامنے آیا ’’ تیز یا سلو‘‘

’’ تیز‘‘ حارث نے یہ جواب دیا

میں نے یہ کلپ دیکھی اس میں ’’ریپڈ فائر‘‘ قسم کے سوال کے مختصر جواب دیے گئے، بظاہر کوئی ایسی غیرمعمولی بات نہیں تھی لیکن اس پر بابر اعظم کے جانثاروں اور سوشل میڈیا آرمی نے طوفان برپا کر دیا، انھوں نے محمد حارث کی ایسی ٹرولنگ کی کہ وہ بیچارہ اب فرسٹریشن کا شکار ہو چکا، ’’خود کو دیکھو  کیسی بیٹنگ کرتے ہو، تم نے بابر کے بارے میں کیسے یہ کہہ دیا، تم کو سینئر کا احترام کرنا نہیں آتا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ 

پہلی بات یہ کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں جہاں آپ کو شائستہ انداز میں اظہار رائے کا حق حاصل ہے، یہ انٹرویو کوئی چند دن پہلے نہیں لیا گیا لیکن کلپ اب وائرل ہوئی، ہنسی مذاق کے انداز میں بات چیت میں اگر کوئی بات کہہ دی تو اسے ویسے ہی لیتے طوفان برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس طرح تو سوشل میڈیا پر مجھے یا آپ کو بھی کسی کرکٹر پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہم نے کون سے 100 ٹیسٹ کھیلے ہیں۔ 

ہمارے یہاں مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے سیاست میں بھی بعض لوگوں کو اس مقام پر بٹھایا ہوا ہے جہاں ان کیخلاف کوئی بات نہیں سن سکتے  اور اگر کسی نے ایسی کوئی غلطی کر دی تو سوشل میڈیا پر اس کی خیر نہیں،بابر تو خیر کرکٹر ہیں لیکن ان  سے بھی بعض لوگوں کی عقیدت ویسی ہی ہوتی جا رہی ہے جہاں چاہنے والے ان کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ موجودہ دور کے سب سے بڑے اسٹار ہیں،ان کے بارے میں بات کریں تو ویوز زیادہ ملتے ہیں، اب تو ٹویٹر (ایکس) بھی مونیٹائز ہے، اگر آپ کا کوئی دوست بیرون ملک رہتا ہے تو اس کا اکاؤنٹ نمبر دیں اور پیسے کمائیں لیکن اس کیلیے ویوز درکار ہیں، لہذا بابر کی تعریف کریں، ویڈیو لگائیں اور ڈالر کمائیں، یو ٹوبرز بھی یہی کرتے ہیں۔ 

بھارت میں پاکستانی اکاؤنٹس بند ہو چکے لہذا اب صرف بابر ہی  کی بات کر کے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، یہ آج کی بات نہیں چند برس قبل جب وسیم اکرم نے بھی بابر کے بیٹنگ اسٹائل پر بات کی تو ان کی بھی بڑی ٹرولنگ ہوئی تھی، حالانکہ وہ تو بابر سے بہت بڑے کرکٹر رہے اور  عالمی سطح پر کئی ریکارڈز کے مالک ہیں۔

آپ نے محمد حارث کو دیکھا ہوگا کیسے وہ یو اے ای کیخلاف آؤٹ ہونے پر بیٹ کو توڑ کر غصہ نکال رہے تھے،اس وقت چار اوورز باقی تھے حارث کون سی سنچری بنا لیتے لیکن یہ فرسٹریشن تھی جس نے ایسا کروایا، آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کھلاڑیوں پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ 

یہ درست ہے حارث کی فارم اچھی نہیں لیکن وہ کس نمبر پر کھیل رہے ہیں اسے بھی فراموش نہ کریں، اگر آپ کو کوئی کھلاڑی پسند نہیں تو ٹیم سے نکال دیں لیکن کسی کی ذہنی صحت خراب کرنے کا کسی کو حق نہیں۔سلمان علی آغا کے ساتھ بھی شائقین کا رویہ اچھا نہیں ہے، کیا وہ خود کپتان بنے ؟ کیا انھوں نے بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹایا یا ٹیم سے نکالا؟ نہیں ناں ،انھیں بورڈ نے یہ ذمہ داری سونپی لہذا اب ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے، وہ کوئی بھارت کا کرکٹر نہیں وہ بھی پاکستانی ہے۔ 

کبھی اسٹرائیک ریٹ تو کبھی اوسط کا بابر کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے، ایک بات سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ  بابر اعظم  جیسے کھلاڑی برسوں میں سامنے آتے ہیں، ان کا موازنہ کسی سے بنتا ہی نہیں، البتہ خراب فارم  کا کوئی بھی شکار ہو سکتا ہے،بابر آج باہرہیں تو ضروری نہیں ہمیشہ ایسا ہو، وہ دوبارہ واپس آ کر ماضی کی طرح رنز کے ڈھیر لگا سکتے ہیں  لیکن فی الحال جو پلیئرز کھیل رہے ہیں انھیں بھی دشمن نہ سمجھیں۔

یہ بابرستان نہیں پاکستان کی ٹیم ہے بھائی، جب ہم زمبابوے، آئرلینڈ، افغانستان اور امریکا سے ہارے تب بابر بھی تو ٹیم میں تھے، پہلے بھی تو ہار رہے تھے ، اب زمانہ بدل گیا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں تیز کھیلنے والوں کی ضرورت ہے، نوجوانوں کو موقع دیں گے تب ہی تو وہ پرفارم کریں گے۔ 

حسن  نواز کو دیکھیں انھیں  مواقع ملے  تو اب کتنا اچھا کھیل رہے ہیں، ایسے ہی مزید نوجوان بھی سامنے آئیں گے، صاحبزادہ فرحان اور صائم ایوب کو دیکھیں، انھوں نے بھی تو خود کو منوایا، سلمان علی آغا بھی  بہتر پرفارم کر رہے ہیں۔

میں نے کئی کھلاڑیوں اور آفیشلز سے بات کی سب کا یہ کہنا ہے کہ موجوودہ ٹیم بہت متحد ہے اور کھلاڑی ایک دوسرے کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں، ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے،  یقین مانیے چند ماہ میں یہی پلیئرز متواتر فتوحات حاصل کرنے لگیں گے، ایک کھلاڑی سے محبت کا مطلب دوسرے سے نفرت کرنا نہیں ہے، سب ہمارے اپنے ہیں،  کل کوئی اسٹار تھا، آج کوئی اور بنے گا۔

 ان کو وقت تو دیں، جب یہ بھی 100،200 میچز کھیل لیں تو ضرور کارکردگی کا موازنہ کیجئے گا، ابھی تو یہ منصفانہ بات نہیں ہے، یہ کرکٹرز بھی آپ کی طرح موجودہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں، فارغ وقت میں موبائل فون ہی دیکھتے رہتے ہیں، ان کو جب سوشل میڈیا پر اپنے موازنے اور کلپس نظر آتی ہیں تو خود صلاحیتوں پر اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ 

آج کے دور میں ہم کسی سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ خود کو فون سے دور رکھے گا، اگر کوئی سوشل میڈیا استعمال نہیں کر رہا تو اہل خانہ یا دوست ہی ایسی کلپس بھیج دیتے ہیں کہ دیکھو تمہارے بارے میں کیا بات ہو رہی ہے،کیا اس سے ان کا اعتماد بڑھے گا یا کم ہوگا؟ اپنے ہی کھلاڑیوں کی ٹرولنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہونا ، اگر کارکردگی اچھی نہیں تو ضرور تنقید کریں مگر الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے،  ہاں اگر کوئی یہ ضمانت دے کہ فلاں کھلاڑی کو واپس لے آؤ وہ ٹیم کو نمبر ون بنا دے گا تو ضرور ایسا کریں لیکن اس سے قبل سابقہ اعدادوشمار ضرور دیکھ لیجئے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)