دنیا بھر میں حکمرانوں کا انتخاب عموماً روایتی طریقوں جیسے فزیکل ووٹنگ یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے وزیراعظم کا انتخاب کیا گیا ہے۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں عوام اپنے حکمرانوں کا انتخاب پولنگ اسٹیشنوں پر حق رائے دہی کے استعمال اور پوسٹل بیلٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔
تاہم سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ یہ امکان پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ مستقبل میں ریاستی سربراہان کے انتخاب میں سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار ہو گا، اور اس کی ابتدائی مثال ایک جنوبی ایشیائی ملک سے سامنے آئی ہے۔
یہ ملک نیپال ہے، جہاں حالیہ عوامی احتجاجات اور پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں صدر، وزیراعظم اور وزرا مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہو گئے۔ اس کے بعد سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو عبوری وزیراعظم کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔
سشیلا کارکی نے دو روز قبل اپنے منصب کا حلف اٹھایا اور اعلان کیا کہ وہ اگلے سال مارچ میں عام انتخابات کرانے اور چھ ماہ کے اندر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپنے کی کوشش کریں گی۔
تاہم اس پورے انتخابی عمل میں سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ سشیلا کارکی کو روایتی طریقے سے نہیں بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ڈسکارڈ‘‘ کے ذریعے منتخب کیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سشیلا کارکی کے انتخاب کا فیصلہ نیپال میں انقلاب لانے والے ’’جین زی‘‘ مظاہرین نے چیٹ ایپ ’ڈسکارڈ‘ پر کیا۔
رپورٹس کے مطابق نیپال میں انقلابی نوجوانوں نے ’’ڈسکارڈ‘‘ پر ایک سرور بنایا جسے ’’یوتھ اگینسٹ کرپشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سرور پر ارکان کی تعداد مختصر عرصے میں ایک لاکھ 30 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس سرور میں مختلف چینلز قائم کیے گئے تھے، جن کے ذریعے احتجاجی دور میں خبریں، زمینی حقائق، ہیلپ لائنز، فیکٹ چیکنگ اور اپڈیٹس فراہم کی جاتی رہیں، اور اس طرح یہ پلیٹ فارم جین زی تحریک کا کمانڈ سینٹر بن گیا۔
نیپالی وزیراعظم کے پی شرما کے استعفے کے بعد، جین زی تحریک نے ملک کی قیادت کے لیے ایماندار اور اہل شخص کو منتخب کرنے کا فیصلہ کیا اور 10 ستمبر کو آن لائن ووٹنگ کرائی، جس میں سشیلا کارکی کو وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔