ادبی دنیا کی درخشاں ستارہ ہاجرہ مسرور کو ہم سے بچھڑے 13 سال گزر گئے

ادبی دنیا کی درخشاں ستارہ ہاجرہ مسرور کو ہم سے بچھڑے 13 سال گزر گئے

ادبی دنیا کی درخشاں ستارہ ہاجرہ مسرور کو ہم سے بچھڑے 13 سال گزر گئے

لاہور : اردو ادب کی معروف افسانہ نگار، مصنفہ اور کہانی نویس ہاجرہ مسرور کو دنیا سے رخصت ہوئے آج 13 برس بیت گئے، لیکن ان کی تحریروں کی روشنی آج بھی قاری کے دل و دماغ کو روشن کرتی ہے۔

ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1930 کو لکھنؤ (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ کم عمری ہی میں کہانیاں لکھنے کا شوق انہیں قلم سے جوڑ گیا۔ بعد ازاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئیں، جہاں ان کے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

ان کے افسانوں میں سماجی شعور، عورت کی آواز اور انسانی جذبات کو جس خوبصورتی سے پیش کیا گیا، اس نے انہیں اردو افسانے کی صفِ اول کی لکھاریوں میں شامل کر دیا۔ احمد ندیم قاسمی کے ساتھ انہوں نے مشہور ادبی جریدہ “نقوش” بھی جاری کیا، جو اردو ادب میں ایک اہم سنگِ میل مانا جاتا ہے۔

ہاجرہ مسرور کے سات افسانوی مجموعے شائع ہوئے، جن میں “چاند کے دوسری طرف”, “تیسری منزل”, “اندھیرے اجالے”, “چوری چھپے”, “ہائے اللہ”, “چرکے” اور “وہ لوگ” شامل ہیں۔

انہوں نے فلم اور ڈرامے کے لیے بھی کام کیا اور کئی یادگار اسکرپٹس تحریر کیے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں “نگار ایوارڈ” سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا، جب کہ حکومت پاکستان نے 1995 میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ہاجرہ مسرور 15 ستمبر 2012 کو کراچی میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں، لیکن ان کا تخلیقی ورثہ آج بھی اردو ادب کے قارئین کو متاثر کرتا ہے۔