یاسین ملک نے جیل میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا

یاسین ملک نے جیل میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا

قوم پرست جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے لیڈر محمد یاسین ملک نے بھارتی دارالحکومت دہلی کی تہاڑ جیل میں جمعے سے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

چھپن سالہ یاسین ملک نے حال ہی میں بھارتی حکومت سے درخواست کی تھی کہ انہیں اُن کے خلاف بھارتی کشمیر کی خصوصی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات میں پیش ہونے اور استغاثہ کے گواہوں سے جرح کی اجازت دی جائے۔

اس سلسلے میں انہوں نے جیل انتظامیہ کے ذریعے نریندر مودی حکومت کو ایک خط بھی ارسال کیا تھا۔ لیکن بظاہر ان کے اس مطالبے کو مسترد کردیا گیا ہے۔

کالعدم جے کے ایل ایف کے ایک ترجمان نے کہا کہ جیل انتظامیہ نے یاسین ملک کو مطلع کیا تھا کہ ان کا یہ خط حکومت کو پہنچنے میں وقت لگے گا۔ چنانچہ انہوں نے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال پر جانے کا ارادہ چند دنوں کے لیے مؤخر کردیا تھا۔

یاسین ملک کی پاکستان میں مقیم اہلیہ مشال حسین ملک نے کہا “مجھے یہ سوچ کر بھی دکھ ہے کہ یاسین ملک نے اپنی موجودہ صحت کی کیفیت کے باوجود بھول ہڑتال پر جانے کا ٖفیصلہ کیا ہے۔”

مشال ملک نےاپنے شوہر کی طرف سے بھارتی حکومت کو لکھے گئےخط کو ٹویٹ کرکے کہا کہ وہ تہاڑ جیل کی ڈیتھ سیل میں 22 جولائی سے اُن کے بقول بھارتی کینگرو عدالتوں میں ان کے خلاف روا رکھی جارہی ناانصافی کے خلاف تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کر رہے ہیں۔

My husband Yasin Malik’s letter announcing fast unto death from 22nd July in Indian Tihar jail death cell against the injustice being meted against him in Indian kangaroo courts! He has left his case to God Almighty , this world doesn’t belong to Kashmiris #Stand4YasinMalik 2/2 pic.twitter.com/dJf34GfKyd— Mushaal Hussein Mullick (@MushaalMullick) July 22, 2022


مشال ملک نے سوشل میڈیا پر اپنی 10 سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ کی ایک ویڈیو بھی ڈال دی ہے جس میں وہ روتے بلکتے کہتی ہیں کہ وہ اپنے پاپا سے بے حد پیار کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ وہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال پر نہ جائیں۔

My husband Yasin Malik has announced fast onto death on 22nd July in Tihar Jail against his judicial murder by Indian Courts in fraudulent cases.our 10 year daughter Raziyah Sultana begs her papa not 2 go on hunger strike,hope the world listens to the cry of this Kashmiri child! pic.twitter.com/mu9rQtymqp— Mushaal Hussein Mullick (@MushaalMullick) July 20, 2022


جے کے ایل ایف کے ترجمان محمد رفیق ڈار نے کہا کہ یاسین ملک سے اظہارِ یکجہتی کے لیے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، دارالحکومت اسلام آباد سمیت پاکستان بھر میں اور بیرونِ ملک درجنوں مقامات پر پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں نے علامتی بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔

یاسین ملک کو مجبور کیا گیا: پاکستان کے دفترِ خارجہ کا بیان

اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ یہ امر قابلَ افسوس ہے کہ یاسین ملک کو ان کے خلاف درج مقدمے پر ہو رہی پیروی کے دوراں ذاتی طور پر عدالت میں حاضر ہونے کی جازت نہیں دی جارہی ہے جو قانونی اور جمہوری اقدار کے بالکل منافی ہے۔

ترجمان نے الزم لگایا کہ”بھارت نے کشمیریوں کی حقیقی قیادت کو صریح تعصب کا ہدف بنا کر ان (کشمیریوں ) کے حوصلے کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک مرتبہ پھر عدلیہ کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ “

ترجمان نے مزید کہا ” یاسین ملک نے ان کے سامنے کوئی اور آپشن نہ ہونے اور انہیں حق دینے سے انکار پر 22 جولائی سے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال پر جانے کا خطر ناک فیصلہ لے لیا ہے۔

یاسین ملک کو رواں برس مئی میں نئی دہلی کی ایک خصوصی عدالت کی طرف سے ٹیرر فنڈنگ کے ایک معاملے میں عمر قید کی سزا سنانے کے بعد تہاڑ جیل کی سیل نمبر 7 کے ایک ہائی سیکیورٹی وارڈ میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے ۔

بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی نئی دہلی میں قائم خصوصی عدالت نے 19 مئی کو یاسین ملک اور دیگر 15 ملزمان کو 2017 میں دہشت گردی کی فنڈنگ کے حوالے سے درج مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔

ہماری جدوجہد عدم تشدد کے اصول پر رواں ہے: یاسین ملک کا اصرار

خصوصی عدالت کے جج پروین سنگھ نے یاسین ملک کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا کہ ان کی قیادت میں جے کے ایل ایف نے 1994 میں کشمیر کی آزادی کے لیے بندوق کا استعمال ترک کیا تھا جس کے بعد انہوں نے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے اصول کو اپنایا جب سے وہ کشمیر میں عدم تشدد کی سیاست کرتے آئے ہیں۔

جج نےکہا تھا کہ اس عرصے کے دوراں وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات پیش آتے رہے لیکن یاسین ملک نے نہ تو ان واقعات کی مذمت کی اور نہ وہ احتجاجی مظاہروں کے لیے کلینڈر جاری کرنے سے باز رہے جن کے دوراں لوگوں کی ایک بڑی تعداد تشدد کی نذر ہوگئی۔

بھارتی حکومت کو لکھے گئے اپنے خط میں یاسین ملک نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اور جے کے ایل ایف کشمیر کی آزادی کے لیے ایک پُر امن جدوجہد جاری رکھنے کے مؤقف پر کاربند ہیں۔

یاسین ملک کن مقدمات میں گواہوں کی خود جرح کرنا چاہتے ہیں ؟

یاسین ملک جو گزشتہ تین سال سے زائد عرصے سے دِلّی کی تہاڑ میں قید ہیں کے خلاف مختلف الزامات کے تحت جموں و کشمیر اور نئی دہلی کی عام اور خصوصی عدالتوں میں کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

ان میں جے کے ایل ایف کی طرف سے 25جنوری 1990کو سرینگر میں بھارتی فضائیہ کے ایک افسر سمیت چار اہلکاروں کو ہلاک اور تین درجن کو زخمی کرنے کا بھی الزام ہے۔

دسمبر 1989 میں اُس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کرنے کے الزامات کے تحت در ج مقدمات بھی شامل ہیں۔ ان دونوں معاملات میں یاسین ملک اور اُن کے ساتھیوں پر پہلے ہی فرد ِ جرم عائد کی جا چکی ہیں۔

یاسین ملک نے جیل میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا


روبیہ سعید کی رہائی کےعوض حکومتِ وقت نے جے کے ایل ایف کے پانچ سرکردہ اراکین کو جیل سے رہا کیا تھا اور یہ واقعہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شروع کی گئی مسلح مزاحمت کے دوران اہم موڑ ثابت ہوا تھا۔

روبیہ سعید جو آج کل بھارتی ریاست تامل ناڈو میں اپنے کنبے کے ساتھ مقیم ہیں گزشتہ دنوں پہلی مرتبہ خصوصی عدالت میں استغاثہ کے گواہ کے طور پر پیش ہوئی تھیں حالانکہ یہ مقدمہ سست رفتاری سے ہی سہی گزشتہ تین دہائیوں سے زیرِ سماعت ہے۔

عدالت نے جب روبیہ سعید سےملزمان کی پہچان کے لیے کہا تو انہوں نے صرف یاسین ملک کی شناخت کی۔ انہیں بعد میں دیگر ملزمان کے اُس زمانے کی تصاویر دکھائی گئیں جب اغوا کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔

‘ماضی کی حکومتوں کا رویہ معذرت خوانہ تھا’

بھارت میں مرکز میں قائم حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک لیڈر رویندر رینہ نے کہا ہے کہ یاسین ملک پر چلائے جانے والے مقدمات میں قانون پر عمل درآمد کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے نہ کہ اس معاملے پر سیاست کی جائے۔

رویندر رینہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مزید کہا “یہ معاملات چونکہ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اس لیے ان پر سیاست کرنا تو دور کی بات ہے رائے دینا بھی مناسب نہیں ہے۔”

انہوں نے کہا کہ یاسین ملک کے خلاف مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کو طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود منطقی انجام تک اس لیے نہیں لے جایا جاسکا کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ان کا رویہ معذرت خوانہ تھا اور وہ کشمیری علیحدگی پسندوں کو تسکین پہنچانے کی روش پر کارفرما تھیں۔