سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتیوں پر تنازع کیوں؟

سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتیوں پر تنازع کیوں؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرصدارت پیر کو جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں تین نئے ججز کی تعیناتی کی سفارش کی تھی لیکن وکلا کی نمائندہ باڈیز ‘ بار کونسلز ‘ ان ججز کے ناموں پر اعتراض اٹھا رہی ہیں۔

جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سفارش کی ہے جب کہ سندھ ہائی کورٹ کے ہی ایک اور جج جسٹس شفیع صدیقی کے نام پر اتفاق رائے نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے چوتھے جج کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا ہے۔

پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ 17 ججز پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس وقت 12 ججز کام کررہے ہیں۔ پانچ ججز کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ کوئی نئی تعیناتی نہیں ہوسکی تھی۔

پیر کو جوڈیشل کمیشن نے جن ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سفارش کی ہے ان پر وکلا نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ سوائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کےدیگر دو ججز سینیارٹی کے لحاظ سے اپنی اپنی ہائی کورٹس میں سینئیر ترین ججز نہیں ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی اس وقت سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس شاہد وحید لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں۔

جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کے بعد وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن انہوں نے اپنے استعفے کی وجہ ذاتی وجوہات کو قرار دیا ہے۔

تاہم انگریزی اخبار ‘ ایکسپریس ٹریبون’ نے مستعفی وفاقی وزیرِ قانون کے ایک قریبی ساتھی وکیل کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اعظم تارڑ نے اگرچہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے منظور کردہ ناموں کی حکومتی ایما پر حمایت کی تھی تاہم وہ ان نامزدگیوں پرخوش نہیں تھے۔

اخبار کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے اعظم تارڑ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے پارٹی کے ساتھ وفاداری بھی ظاہر کی ہے لیکن استعفیٰ دے کر انہوں نے بار کے ساتھ کھڑے ہونے کا بھی ثبوت دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے لیے سفارش کردہ تین ججز کے ناموں پر بار کونسل کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جولائی میں ہونے والے اجلاس کے دوران اکثریتی ووٹوں سے ان کے نام مسترد کردیے تھے۔ لیکن انہیں دوبارہ اجلاس میں غور کے لیے پیش کیا گیا۔

پہلے اعتراض پر تو وکلاء کی نمائندہ تنظیموں نے علامتی ہڑتالیں بھی کیں اور پریس کانفرنسز کے ذریعے سینیارٹی کے اصول کو بالائے طاق رکھنے پر سخت ناراضی کا اظہار کی

قومی جوڈیشل کمیشن میں پاکستان بار کونسل کے نمائندے اور سینئر وکیل محمد اختر نے بتایا کہ ججز کی تقرریوں میں شفافیت سے متعلق قواعد بنانے کے لیے چیف جسٹس کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی تھی لیکن اس کا اب تک صرف ایک اجلاس ہوا ہے اور وہ بھی بے نتیجہ رہا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری سے متعلق کوئی معیار مقرر نہیں کیا جاتا، ججوں کی تقرریوں پر سوالات اٹھتے رہیں گے جس سے عدلیہ کا وقار بُری طرح مجروح ہورہا ہے۔

وکلا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سینیارٹی کے اصول کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنے سے ججز کے درمیان پائی جانے والی رواداری ختم ہورہی ہے اور اس کا نتیجہ عدالتی امور اور انصاف کی فراہمی متاثر ہونے کی صورت میں نکل رہا ہے۔

اس سے قبل وکلانے سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتیوں کے وقت بھی ان کے ناموں پر سینیارٹی کو نظر انداز کرنے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا موجودہ طریقۂ کار کیا ہے؟

پاکستان میں اس وقت 19ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 175اے میں سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا طریقۂ کار دیا گیا ہے جس میں اعلیٰ عدالت میں جج تعینات کرنے کے کُلی اختیارات سپریم کورٹ ہی کے پاس ہیں۔

اس مقصد کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج، ایک سابق چیف جسٹس جو دو سال کے لیے تعینات ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک سینئر وکیل بھی ججز کے تقرر کے پینل میں شامل ہوتے ہیں۔

اسی طرح ججز کی تقرری کے لیے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی الگ سے قائم ہوتی ہے جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے چار چار اراکین شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے چار کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعتوں جب کہ چار کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن جج کی قابلیت اور اس کی پیشہ وارانہ اہلیت دیکھ کر سفارشات مرتب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی نامزدگی موصول ہونے کے 14 روز کے اندر سادہ اکثریت سے ان ناموں کی منظوری دیتی ہے اور اگر اس دوران یہ فیصلہ نہ ہو سکے تو عدالتی کمیشن کا ہی فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے۔

اگر پارلیمانی کمیٹی کسی نام کو مسترد کرتی ہے تو تین چوتھائی ممبران کی حمایت کے ساتھ اس نام کو مسترد کرنے کی وجوہات کو بھی بیان کر کے سفارشات وزیرِ اعظم کو ارسال کی جاتی ہیں جس پر جوڈیشل کمیشن اس نام کے بجائے کوئی اور نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتا ہے۔

ججز کے وہ نام جو پارلیمانی کمیٹی منظور کر لیتی ہے۔ اسے بھی وزیرِ اعظم کو ارسال کیا جاتا ہے جو ان کی تعیناتی کے لیے صدرِ مملکت کو ایڈوائس بھیجنے کے پابند ہیں۔

سینیارٹی کے تحت ججز کی تقرریوں کی مخالفت

سپریم کورٹ کے وکیل چوہدری اظہر ایڈووکیٹ کے خیال میں آئین کے آرٹیکل 176 میں سپریم کورٹ کے جج بننے کے لیے اہلیت پانچ سال ہائی کورٹ کا جج رہنا اور کم از کم 15 سال ہائی کورٹ میں وکالت رکھی گئی ہے۔

ان کے بقول سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی کے اصول کو کہیں پر آئینی تحفظ حاصل نہیں اور یہ کسی طرح سے کسی بھی قانون یا آئین کی نفی نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ چوہدری اظہر کے مطابق آئین کے تحت یہ استحقاق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں ججز کے لیے کسے تعینات کرتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی عدلیہ کو ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے رول آف لاء انڈیکس 2021 میں 139 ملکوں کی فہرست میں130 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

ماہرینِ قانون کے مطابق یہ درجہ نہ صرف ملک کے نظام انصاف کی کمزوریوں کو اُجاگر کرتا ہے بلکہ اس ضمن میں عدالتی اصلاحات کی جانب بھی توجہ مبذول کرا رہا ہے۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کو خط لکھ کرمذکورہ انڈیکس پر اعتراض کیا تھا اور مؤقف اپنایا تھا کہ پاکستان کی عدلیہ کی عالمی رینکنگ رپورٹ مفروضوں پر مبنی ہے اور رول آف لاء انڈیکس میں بھی کئی خامیاں موجود ہیں