دنیا کی 99 فی صد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لے رہی ہے: عالمی ادارۂ صحت

دنیا کی 99 فی صد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لے رہی ہے: عالمی ادارۂ صحت

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ ماحولیاتی مسائل کی بنا پر مرجاتے ہیں جن میں ستر لاکھ سے زیادہ وہ لوگ شامل ہیں جو فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کے جاری کردہ نئے اعدادوشمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ عملی طور پر پوری دنیا غیر صحت مند ہوا میں سانس لے رہی ہے۔ڈبلیو ایچ او نے فضائی آلودگی کی سطح کو کم کرنے کے لیے روایتی ایندھن کے استعمال کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔

ڈبلیو ایچ او کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور صحت میں تکنیکی افسر سوفی گمی کہتی ہیں کہ اس سے اربوں لوگوں کی صحت کوخطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ مشرقی بحرہ روم، جنوب مشرقی ایشیائی اور افریقی خطوں میں ہوا کا معیار سب سے زیادہ ناقص ہے۔

گومی نے کہا کہ ستر لاکھ اموات میں سے زیادہ تر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زیادہ آمدنی والے ممالک متاثر نہیں ہوتے۔انھوں نے کہا کہ ہم صحت پر فضائی آلودگی کے اثرات کا حساب لگانے کے لیے اس سے ہونے والی اموات کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہیں، حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بیماری کے لیے جو وجوہات پیدا کرتی ہیں، انہیں شمار کیا جانا چاہیے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے بہت سے اخراجات ہوتے ہیں جس کا ضروری نہیں کہ اموات کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہو۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوا کے بہت سے ذرات کی کم سطح سے بھی اہم نقصان ہورہا ہے۔آلودہ فضا سے ذرات پھیپھڑے اور خون میں داخل ہوجاتے ہیں، یہ دل کی بیماری، فالج اور سانس لینے میں مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نائڑوجن آکسائیڈ یا این او ٹو دمہ اور سانس کی دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور صحت کی ڈائریکٹر ماریہ نیرا کا کہنا ہے کہ ذرات جسم کے تقریباً ہر عضو کو متاثر کرسکتے ہیں۔ وہ اسے صحت کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیتی ہیں جو کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔اسی لیے وہ کہتی ہیں کہ فضائی آلودگی کے اسباب سے بھی اسی طرح نمٹا جانا چاہیے۔

نیرا نے کہا کہ ہمیں توانائی کے صاف، جدید ، پائیدار اور قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں سب اس بات پر متفق ہوں گے کہ توانائی پیدا کرنے کے لیے فوصل ایندھن پر انحصار ختم کرنا ہوگا ، اگر ہم اپنی صحت کی حفاظت جاہتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او ایسے اقدامات کی سفارش کرتا ہے جن میں محفوظ اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ سٹم کی تعمیر، گاڑیوں کے دھویں کی روک تھام،کم توانائی استعمال کرنے والے مکانات اور پاور جنریشن میں سرمایہ کاری اور صنعت اور میونسپل فضلے کو تلف کرنے کے کام کو مزید بہتر بنانا شامل ہے۔