برصغیر پاک و ہند کی دوسری بڑی اسلامی ریاست

برصغیر پاک و ہند کی دوسری بڑی اسلامی ریاست


کالم نگار (محمّد شہزاد بھٹی)برصغیر پاک و ہند کی دوسری بڑی اسلامی ریاست بہاولپور کی بنیاد 1727 میں نواب صادق محمد خان عباسی اول نے رکھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ اللہ آباد ریاست کا پہلا دارالخلافہ قرار پایا۔ برصغیر کی تقریباً چھ سو ریاستوں میں سے ریاست بہاول پور کا نمبر بلحاظ مرتبہ بائیسواں تھا اس کے فرماروا سترہ توپوں کی سلامی پاتے تھے اور خود مختار ہونے کی حیثیت سے اپنا سکہ بھی رکھتے تھے۔ یہ ریاست دولت خداداد کہلاتی تھی حکومت برطانیہ ریاست بہاولپور کو کس قدر اہمیت دیتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جارج ششم کی تاجپوشی کی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان کے تقریباً چھ سو والیان ریاست میں سے صرف چھ حکمرانوں کو مدعو کیا گیا جن میں نواب آف بہاولپور بھی شامل تھے۔ 1892 میں ریاست میں ڈگری کلاسز کا اجراء کیا گیا۔ برصغیر کے ممتاز ماہرینِ تعلیم کا تقرر ایس ای کالج میں کیا گیا، جن میں بابو پرسنا کمار بوس بطور پہلے پرنسپل، پروفیسر لالہ رام رتن، پروفیسر مرزا اشرف گورگانی، مولوی محمد دین، پروفیسر وحید الدین سلیمؔ پانی پتی نمایاں نام ہیں۔ 1925 میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی تعلیم کے لیے جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا گیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں تمام مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ تعلیم دیتے تھے فنی تعلیم کے لیے صادق کمرشل انسٹی ٹیوٹ قائم ہوا جو اب صادق کامرس کالج کے نام سے پوسٹ گریجوایٹ تک طلبہ کو زیورِ تعلیم سے اب تک آراستہ کر رہا ہے ایچی سن کالج کی طرز پر 1954 میں صادق پبلک سکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارہ قائم کیا گیا جو 450 ایکڑ زمین پر محیط ہے۔ 1928 دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمانکی، ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند تعمیر کیے گئے اور پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھا دیا گیا۔ 3 دسمبر 1930 کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن میں ریاست کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بطور عطیہ دی گئی۔ 28 دسمبر 1930 کو انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ کے لیے گرانقدر مالی امداد دی گئی جو تاریخ کے اوراق کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ 1908 میں ندوۃالعلماء لکھنؤ کے لیے ریاست کی طرف سے دی جانے والی پچاس ہزار روپے کی مالی امداد کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی نے شکریہ کا خط تحریر کیا جو محافظ خانہ (محکمہ دستاویزات) بہاو ل پور میں محفوظ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کا سینٹ ہال (جہاں اس وقت یونیورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) اسی ریاست بہاولپور کی طرف سے تعمیر کرایا گیا اس عمارت کی پیشانی پر آج بھی نواب صاحب کے نام کی تختی موجود ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کابہاول پور بلاک ہو یا ایچیسن کالج کا بورڈنگ ہاؤس (بہاول پور ہاؤس) نواب صادق کی یادگار ہیں۔ صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) میں آل انڈیا مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی تین نشستیں منعقد ہوئیں اور برصغیر کے طول و عرض سے نامور شعراء کرام نے اس میں شرکت کی۔ قادر الکلام صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ’’دیوانِ فرید‘‘ ترجمہ اور تشریح کے ساتھ 1942 میں عزیز المطابع پریس سے شائع کیا گیا۔ ریاست بہاولپور کی طرف سے حکومت پاکستان کو ابتدائی طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے 7 کروڑ روپے اور بعدازاں 2 کروڑ روپے، پھر 22 ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کے لیے 5 لاکھ روپے دیے گئے۔ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ریاست بہاولپور کی ملکیت ﺍﻟﺸﻤﺲ ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻘﻤﺮ ﻣﺤﻞ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺟﻨﺎﺡ ﮐﻮ دیئے گئے ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﺎ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﺎ ہے۔ 1954 میں پاکستان اور بھارت کا پہلا میچ بھی ڈرنگ سٹیڈیم میں ہوا تھا۔یہ ریاست بہاولپور ہی تھی ﺟﺲ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ملک ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻄﯿﺮ ﺭﻗﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﯼ۔ ریاست ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﺎﮨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺑﻄﻮﺭ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺟﻨﺮﻝ ﺣﻠﻒ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮔﺌﮯ۔ پاکستان کے سربراہ قائداعظم کو ان کے شایان شان مہنگی ترین رولز رائس گاڑی ان کو تحفے میں دی گئی۔ اِن ﺧﺪﻣﺎﺕ کو ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ نےﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭ۔